دیوانی مقدمات کے بارے میں ایک مثل مشہور ہے کہ دیوانی عدالت میں دادا کے وقت میں دائر ہونے والے کیس کا فیصلہ اس کے پوتے کے وقت میں کہیں جاکر کر آتا ہے اگر اس طوالت کا احساس متعلقہ اداروں کو اب ہونے لگا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے دیوانی مقدمات کے عدالتوں میں دورانیہ کو کم کرنے کے لئے دونوں اداروں یعنی عدالتوں اور وکلا کرام کو صدق دل سے مل کر کام کرنا ہوگا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے اگلے روز بالکل درست فرمایا کہ وکلا کرام کو عدالتوں میں میں ٹھنڈے دل و دماغ سے کام کرنا چاہئے عدالتوں میں مقدمات کی کاروائی کے دوران وکلا اور ججوں کے درمیان جواب وسوال کا سلسلہ صرف قانونی امور پر بحث و مباحث تک ہی محدود ہونا چاہئے ۔قانونی ماہرین کی رائے میں صرف اسی جج کو ایک اچھا جج تصور کیا جاتا ہے جو وکلا سے کسی مقدمے کے دوران غیر ضروری نوک جھونک سے اجتناب کرے۔جج کو سپیکنگ جج نہیں ہونا چاہیے بالفاظ دیگر اگر وہ بولے تو صرف اپنے تحریری فیصلے کے ذریعے ہی بولے اگر وہ کسی مقدمے کی سماعت کے دوران غیر ضروری ریمارکس پاس کرے گا تو اس مقدمے کے بارے میں اس کے ذہنی رجحان کا پہلے ہی سے لوگ اندازہ لگا لیں گے کہ جو اچھی بات نہیں جہاں تک اس مطالبے کا تعلق ہے کہ ججوں کی تعیناتی کے سلسلے میں وکلا کے ساتھ مشاورت کی جاے ایسا کرنا کوئی زیادہ مناسب بات نہ ہو گی ججوں کی بھرتی دو طریقوں سے کی جا رہی ہے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ نچلی سطح پر بطور سول جج ان کی بھرتی پبلک سروس کمیشن کے منعقد کردہ مقابلے کے امتحان کے ذریعے انجام پاتی ہے اور پھر وقت کے ساتھ یہ لوگ ترقی کرتے کرتے ڈسٹرکٹ سیشن جج کے عہدے تک جا پہنچتے ہیں اور پھر انہی میں سے میرٹ پر ان کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مقرر شدہ کوٹے کے اندر عدالت عالیہ کا جج چن لیا جاتا ہے اس کے علاوہ ایک فکسڈ کوٹے کے تحت وکلا برادری سے بھی برائے راست چند جج عدالت عالیہ میں لگائے جاتے ہیں۔ آگے جا کر پھر انہی عدالت عالیہ کے ججوں میں سے سینارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کی جاتی ہے جہاں تک ججوں کی اس کیٹگری کا تعلق ہے ہے کہ جو بطور سول جج بھرتی ہوتے ہیں اور پھر اپنی کارکردگی کی بنیاد پر دھیرے دھیرے ترقی کے مختلف زینے طے کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج بنتے ہیں اس طریقہ کار میں تو کوئی خاص ردوبدل کی ضرورت نظر نہیں آرہی کیونکہ ججوں کی اس کیٹگری میں صرف مقابلے کے امتحان میں شامل ہو کر کامیابی کی صورت ہیں عدلیہ میں شمولیت کی جاسکتی ہے البتہ جو جج وکلاءبرادری میں سے براہ راست ہائی کورٹ میں تعینات کیے جاتے ہیں ان کی بھرتی میں بہت احتیاط اور باریک بینی کی ضرورت ہے۔تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کہ وکلاءبرادری میں سے جو لوگ براہ راست عدالت عالیہ میں بطور جج لگائے جاتے ہیں وہ اکثر و بیشتر حکومت وقت کے منظور نظر ہوتے ہیں ان کی بھرتی میں نہایت ہی احتیاط کی ضرورت ہے ‘منصفی کرنا دنیا کا سب سے بمشکل کام ہے یہی وجہ تھی کہ جب امام ابو حنیفہ ؒ کو قاضی القضات بنایا جارہا تھا تو انہوں نے یہ منصب قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جج بن کر زندگی گزارنا ایک بہت بڑی قربانی کا نام ہے ۔