سال رواں اپنی آخری ہچکی لینے والا ہے نئے سال کی آمد آمد ہے نئے سال میں جو واقعات اور سانحات ہو نے والے ہیں ان کی پیشن گوئی کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں کہا یہ جا رہا ہے کہ نیا سال قحط کا سال ہوگا غربت بیمار ی اور بھوک اس کا مقدر ہوں گے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نئے سال میں تنازعات ماحولیاتی تبدیلیاں اور کورونا وائرس کے خطرات کئی گناہ بڑھ جائیں گے عالمی سطح پر کئی ممالک میں 2021 ءمیں قحط کا خطرہ ہے افریقہ کے کئی ممالک بشمول افغانستان اگلے سال بھی تنازعات کا شکار رہیں گے ‘تشدد ‘نقل مکانی اور ضروریات زندگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے گا ان پیشنگوئیوں سے ایک حساس عام آدمی کا دل یقینا دہل جاتا ہے ‘جس طرح ہمارے ہمسائے ملک افغانستان میں انتشار پھیلا ہوا ہے بالکل اسی طرح یمن ‘شام ‘کانگو ‘نائجیریا‘جنوبی سوڈان ‘ایتھوپیا اور موزمبیق وغیرہ میں بھی تنازعات کا ایک انبار ہے اور ان کو بھی بھوک اور قحط کی صورت حال کا سامنا ہے‘ان ابتدائی گھمبیر پیشگوئیوں کے ذکر کے بعد آئیے چند دیگر اہم قومی اور بین الاقوامی امور پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں‘کورونا وائرس کی شدت میں آئے دن بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز میں بھی دیگر ممالک کی طرح روزانہ کئی قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں جن سے ہزاروں خاندان بری طرح متاثر ہو رہے ہیں پر ان حقائق کے باوجود اس ملک میں کئی لوگ میں نہ مانوں میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر جگہ جگہ جمگھٹے اور میلے لگا رہے ہیں اور ان حفاظتی تدابیر کو انہوں نے بالائے طاق رکھا ہوا ہے کہ جن پر عمل درآمد کر کے وہ کافی حد تک اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو اس وبا سے بچا سکتے ہیں اب اگر کوئی خودکشی کرنے پر تلا ہو تو اس کے لئے ہم بجز اس کے اور کیا کر سکتے ہیں کہ خدا سے دعا کریں کہ وہ انہیں ہدایت دے ‘جس قسم کی سیاست اس ملک میں کی جاتی ہے اس کے رموز سے مولانا فضل الرحمن صاحب کافی آشنا ہیں ‘ اور وہ اس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ‘کئی لوگوں کے نزدیک جمعیت نے عجلت میں بلوچستان میں مولانا شیرانی ‘ حافظ حسین احمد اور خیبرپختونخوا میں ان دو حضرات کے سیاسی نظریات سے ہم آہنگی رکھنے والے دو اہم سیاسی لیڈروں مولانا گل نصیب اور شجاع الملک کو پارٹی سے فارغ کر دیاحالانکہ ان کو راضی کیا جا سکتا تھا۔یہ خبر خوش آئند ہے کہ ڈیکلیئرڈ اثاثہ جات آمدن اور خرچ سے زائد ہونے پر کاروائی ہوگی اس ضمن میں ایف بی آر نے ڈیکلریشن رولز 2019 ءمیں ترامیم کا مسودہ اگلے روز جاری کر دیاہے اس ملک کا المیہ ہی یہی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں کی آمدنی کے ساتھ ان کے اثاثہ جات اور اخراجات میل نہیں کھاتے اس قسم کے لوگوں میں سیاستدان بھی شامل ہیں اور بیوروکریٹس بھی آج تک کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ یہ جو تم محل نما کئی کئی کنالوں پر محیط بنگلوں میں رہتے ہو ہر سال کئی کئی مرتبہ بزنس یا فرسٹ کلاس میں یورپ ‘امریکہ اور عرب امارات کے شاپنگ اور سیر کیلئے لگاتے ہو تمہارے بال بچے بیرون ملک یا اندرون ملک ان سکولوں یا کالجوں میں پڑھتے ہیں جن کی ماہانہ فیس لاکھوں روپے بنتی ہے تمہارے زیر تصرف جو گاڑیاں ہیں ان کی قیمت کروڑوں میں بنتی ہے تو تم ان کاموں پر خرچ ہونے والی رقم کا بندوبست کہاں سے کرتے ہو کہ تمہاری معلوم آمدن تو محدود ہے اس قسم کے لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہوگا یہ کام یقیناً بڑا مشکل کام ہے کیونکہ اس قسمکے لوگوں نے ہر سرکاری محکمے میں اپنے ہم خیال لوگ پیدا کئے ہوئے ہیں کہ جن کی مٹھی وہ گرم کرتے رہتے ہیں تاکہ ان پر کوئی قانونی ہاتھ نہ ڈالا جا سکے ۔