یہ بات سوچ طلب ہے کہ یوں تو مذہبی سیاسی پارٹیوں کی اس ملک میں اچھی خاصی سٹریٹ پاور ہے پر اس کے باوجود آپ شروع سے لے کر اب تک اس ملک میں جو الیکشن منعقد ہوئے ہیں ان کے نتائج کی فہرست پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ وہ قومی اسمبلی سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اتنی اکثریت سے کامیاب نہیں ہوتیں کہ جتنی ان کی سٹریٹ پاور نظر آتی ہے 2018کے الیکشن پر اگرآپ ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس الیکشن میں بارہ کے قریب قریب مذہبی جماعتوں نے حصہ لیا تھا جنہوں نے ملاجلا کر جتنے بھی ووٹ اس الیکشن میں ڈالے گئے ان کا صرف9.58 فیصد ووٹ حاصل کیا۔ایک عرصے سے اس ملک میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور حکومت وقت کے درمیان سیاسی چپقلش چل رہی ہے اس میں تادم تحریر جماعت اسلامی نے ان دونوں فریقین میں سے کسی کی بھی کھل کر حمایت کا اعلان نہیں کیا اب تک اس نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہوا ہے اور وہ بین بین چل رہی ہے اس پالیسی کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے واقفان حال کا تو کہنا یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی حتی الوسع کوشش یہ ہے کہ ماضی کے تجربہ سے فائدہ اٹھا کر وہ ان سیاسی پارٹیوں کے ساتھ کسی قسم کے مراسم نہ بڑھائے کہ جن کا ماضی کسی نہ کسی حوالے سے داغدار ہے اور جس کے رہنماو¿ں پر کرپشن کے میگا کیسز بنے ہوئے ہیںکیونکہ ایسا کرنے سے اس کی اپنی عمومی شہرت پر حرف آ سکتا ہے اس کے بر عکس دوسری رائے یہ ہے کہ سردست جماعت اسلامی سیاسی اکھاڑے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان دنگل کا بنظر غائر جائزہ لے رہی ہے اور مناسب وقت پر وہ اس سیاسی پارٹی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالے گی کہ جس کے الیکشن میں جیت کے امکانات اسے زیادہ محسوس ہوں گے ‘پارلیمانی نظام جمہوریت ان ممالک میں تو شاید سودمند ہو جیسا کہ انگلستان کہ جہاں دو یا زیادہ سے زیادہ تین سیاسی جماعتیں ہیں پر ہمارے جیسے ممالک کہ جہاں سیاسی پارٹیوں کا چوں چوں کا مربا ہے اس میں پارلیمانی نظام جمہوریت نے ابھی تک کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جس سے ملک کے عوام کے مفادات کی نگہبانی ہوتی ہو اس نظام کی افادیت اور ورکنگ پر ملک کے سماجی اور سیاسی حلقوں میں کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس ملک میں پارلیمانی نظام جمہوریت کی جگہ ایسا نظام ہو کہ جس میں اس ملک کے عام آدمی کی داد رسی ہو سکے ‘ آپ نے بعض سیاسی لیڈروں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ سینیٹ کے الیکشن اسی طرح خفیہ ووٹنگ کے ذریعے کیے جائیں کہ جس طرح کیے جا رہے ہیں اور یہ کہ اسے اوپن بیلٹنگ کے ذریعے نہیں کروانے چاہیں آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جو لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں ان کی منشا کیا ہے یہ تو آپ کو پتہ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں پیسے چلنے کی باتیں نئی نہیںہیں اور اور عام طور پر وہی لوگ سینٹ کے ممبر بنتے ہیں کہ جو سینٹ کی سیٹ کیلئے مہنگے خرچے برداشت کرسکیں اوروہی اس الیکشن میں کامیاب ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ لوگ سینٹ کے ممبر کیوں بننا چاہتے ہیں وہ اس لئے کہ ایک تو آپ کی سینیٹ کی رکنیت کے دوران آپ کو اچھی خاصی موٹی رقم بطور ماہانہ تنخواہ ملتی ہے آپ کے متفرق قسم کے اخراجات کا بوجھ بھی ٹیکس دہندگان پر پڑتا ہے اور پھر اس پر طرہ یہ کہ آپ کو اپنے انتخابی حلقے میں ترقیاتی کاموں کو سرانجام دینے کے لیے ہر سال کروڑوں روپے کا فنڈ بھی ملتا ہے جو تجربہ بتاتا ہے کہ صرف ایک چوتھائی اصلی کام پر خرچ کیا جاتا ہے ۔