تخریبی کاروائیوں کی نئی لہر

اگلے روز بلوچستان میں ہرنائی کے مقام پر دہشت گردوں کے ایک حملے کو ناکام کرنے کی کوشش میں ہماری ایف سی کے سات جوان شہیدہوئے اس قسم کے واقعات آئے دن تواتر سے ہورہے ہیں پر مجال ہے کہ ہماری اپوزیشن کے کسی لیڈر کے کان پر جوں بھی رینگی ہو چند عرصہ پہلے اس ملک میں تخریبی کاروائیوں کے سلسلے میں کافی کمی واقع ہوئی تھی بلکہ وہ نہ ہونے کے برابر ہو گئی تھیں پر ہمارے دشمنوں نے ایک مرتبہ پھر اس ملک میں تخریب کاری کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری افواج کو مختلف محاذوں پر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے بھلے وہ لائن آف کنٹرول ہو بلو چستان ہو یا خیبر پختونخوا کے ساتھ ملحقہ سابقہ قبائلی علاقہ بلوچستان کے بارے میں بہت پہلے ہم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ نہ امریکہ چاہے گا اور نہ بھارت کہ گوادر ایک کامیاب بین الاقوامی بندرگاہ کی شکل اختیار کرے اور سی پیک کے تحت بلوچستان کے اندر وسیع پیمانے پر زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی منصوبے مکمل ہوں اور اس علاقے کے لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے اور وہ مختلف حربوں اور تخریبی کارروائیوں کے ذریعے بلوچستان کے امن عامہ کو حتی الوسع نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے ۔ افغانستان کے مخمصے سے نہ جانے ہماری جان کب چھوٹے گی کیونکہ جب تک وہاں ایک ایسی حکومت قائم نہ ہوگی کہ جو اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف تخریبی کاروائیوں کےلئے استعمال نہ ہونے دے گی اس وقت تک ہمارا امن عامہ ہمیشہ ڈسٹرب رہے گا وزیر خارجہ صاحب فرماتے ہیں کہ پانچ جنوری سے افغان مذاکرات اہم اور نازک مرحلے میں داخل ہوں گے اور یہ کہ فریقین الزامات سے باز رہیں اور افغانستان میں دیرپا امن و استحکام کے وسیع مقصد کےلئے دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔جب تک امریکہ یہ فیصلہ نہیں کرتا کہ اس نے افغانستان میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرنی صرف اپنی فوجوں کو افغانستان کی سرزمین سے نکال کر وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں ڈال سکتا۔یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ ایک عرصے سے ریٹائرڈ امریکی فوجیوں کی کمپنیوں کو اس قسم کے ٹھیکے دیتا ہے کہ جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں ان کی جنگی جرائم کے قوانین کے تحت پکڑ نہیں ہوتی کہ جس طرح باوردی ریاستی فوجیوں کی ہوتی ہے یہ پڑھ کر آپ کو حیرت ہوگی کہ اس قسم کے کرائے کے فوجیوں کی لاکھوںمیں ہے اور جو سو سے زیادہ ممالک میں کام کر رہی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان سے امریکی فوجی رخصت تو ہوجائیں گے پر اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکہ اس خطے بشمول افغانستان میں اس قسم کے دفاعی ٹھیکیدار کمپنیوں کے ذریعہ اپنی خفیہ کاروائی جاری رکھے گا واقفان حال کہنا ہے کہ امریکہ کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ افغانستان سے اپنے قدم باہر نکالے کیوں کہ اس کی نظر اگر ایک طرف وسطی ایشیا کے لاتعداد معدنی وسائل پر ہے تو دوسری طرف وہ چین کو بھی ٹھکانے لگانے کےلئے مناسب کاروائی کرنا چاہتا ہے ۔زلمے خلیل زاد کا نام تو آپ نے سنا ہوگا وہ افغانستان کے معاملے میں امریکی ٹیم کے نمائندے کے طور پر ایک عرصے سے کافی متحرک ہیں ان کا یہ خاصہ ہے کہ وہ گفتار کے بہت ماہر ہیں اور معاہدہ جنیوا جیسے متنازعہ معاہدے میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے آج کل وہ ایک مرتبہ پھر مصروف عمل ہیں اب خدا خیر کرے دیکھتے ہیں وہ اس مرتبہ کیا گل کھلاتے ہیں۔