اگلے روز بلاول نے ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ کہہ کر عام لوگوں کو شک میں ڈال دیا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفوں کو نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کرنے کی تصدیق یا تردید نہیں کروں گا شف شف کہنے کے بجائے انہیں شفتالو کہنا چاہیے تھا ، مبہم پالیسی کوئی اچھی نہیں ہوتی اگر انہوں نے واقعی استعفوں کو نواز شریف کی وطن واپسی کے ساتھ مشروط کر دیا ہے تو ایسا کرکے یقینا انہوں نے میاں نواز شریف صاحب کو ایک بڑے مخمصے میں ڈال دیا ہے میاں صاحب میں ہو سکتا ہے کہ کئی سیاسی صفات ہوں پر واقفان حال جانتے ہیں کہ جیل کے معاملے میں وہ ہمیشہ بڑے ڈھیلے ثابت ہوئے ہیں اس ملک میں اب نہ تو کوئی نیلسن منڈیلا جیسا رہنما موجود ہے اور نہ باچا خان اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسا کہ جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کےلئے بغیر کسی چوں چراں کے خاموشی کے ساتھ جیل کی قید گزارا کرتے تھے جیل کی سزا کاٹنے کے ضمن میں ہمارے اکثر رہنما دودھ کے مجنوں ہیں اگر میاں محمد نواز شریف وطن نہیں آتے تو پھر اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی انکے نہ آنے کو وجہ بنا کر اگر پی پی پی اسمبلیوں کی نشستوں سے استعفے نہیں دیتی تو کیا اس سے پی ڈی ایم کی تحریک پر منفی اثر نہیں پڑے گا اور کیا اس صورت میں نون لیگ کے بکھرنے کا جواز پیدا نہیں ہوگا مریم بی بی اسمبلیوں سے استعفے دینے کےلئے اور سینیٹ کا الیکشن نہ لڑنے کےلئے بلاول بھٹو کو مجبور کرنے کےلئے آخری حد تک جائیں گی پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی پی پی کی قیادت سندھ حکومت سے ہاتھ دھونے پر تیار جائے گی اور پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ سینٹ کا الیکشن نہ لڑنے سے اگر کسی کا نقصان ہوتا ہے تو وہ صرف پیپلزپارٹی کا ہے نون لیگ اور جے یو آئی ایف اگر سینیٹ کا الیکشن نہیں بھی لڑتی تو انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ بہرصورت وہاں پر خسارے میں ہیں اور مستقبل قریب میں بھی جہاں تک سینٹ کا تعلق ہے وہاں ان کی سیٹیں زیادہ ہونے کے بجائے مزید کم ہو جائیں گی سفارت کاروں اور سیاستدانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ مبہم باتیں کرتے ہیں اور کھل کر کبھی کسی کو اپنے دل کا حال نہیں بتاتے اگر وہ کسی سوال کے جواب میں ہاں کا لفظ استعمال کریں تو اس سے یہ اخذ کرنا چاہیے کہ ان کا مقصد شاید ہے اور اگر وہ کسی سوال کے جواب میں شاید کا لفظ استعمال کریں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا جواب نفی میں ہے وہ شخص ڈپلومیٹ یا سیاستدان ہو ہی نہیں سکتا کہ جو کسی سوال کے جواب میں نہیں کا لفظ استعمال کرے وہ ہمیشہ ہاں اور شاید جیسے الفاظ استعمال کرے گا گزشتہ منگل کے دن بلاول کی پریس کانفرنس بھی اسی ذہن کی عکاسی کر رہی تھی اس ملک میں سیاسی پارٹیوں میں تو ہر دور میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہی ہے پر اب اس طرز عمل سے مذہبی پارٹیاں بھی بالکل مبرا نہیںہیں غالبا جماعت اسلامی ایک ایسی مذہبی پارٹی ہے کہ جو انتظامی طور پر انتشار کا شکار اب تک نہیں ہوئی اگر اس کے کسی اہم رہنما نے اپنی پارٹی کی قیادت سے کسی معاملے میں اختلاف بھی کیا ہے تو خاموشی سے کیا اس سے جدا ہو کر پارٹی کے اندر کوئی دوسرا دھڑا نہیں بنایا اور اسکی غالبا سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس پارٹی میں موروثیت نامی کوئی شے موجود نہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو آج اس پارٹی کی قیادت اس پارٹی کے بانی کے خاندان کے ہی ارد گرد گھوم رہی ہوتی یہ تمہید ہم نے اس لئے باندھی کہ اگلے روز جمعیت علمائے اسلام میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی جب مولانا شیرانی صاحب اور ان کے چند رفقاے کار اس پارٹی سے علیحدہ ہوئے اور انہوں نے اپنی پارٹی کا نام جمعیت علمائے اسلام پاکستان رکھا اور اس کے ساتھ ایف کا جو لاحقہ لگا ہوا تھا اسے اس کے نام سے خارج کر دیا مولانا شیرانی صاحب کا یہ فیصلہ یقینا جے یو آئی ایف کی قیادت کیلئے ایک بہت بڑا سیاسی جھٹکا ہے کیونکہ یہ اسے اس وقت لگا ہے کہ جب اس کی زیر نگرانی پی ڈی ایم کی سیاسی تحریک ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو چکی ہے اور جس کیلئے آئندہ چند ہفتے نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔