جب تک اس ملک میں الیکٹرونک میڈیا نہ تھا تو ہمارے اکثر سیاستدانوں کےلئے یہ بات مشکل نہ تھی کہ وہ اپنے کسی بیان سے مکر جائیں پر اب ایسا کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے اب سیاسی رہنما قوم سے جو بھی وعدہ کرتے ہیں ان کا جو بھی بیانیہ ہوتا ہے وہ ریکارڈ ہوجاتا ہے اس کی فوٹیج بن جاتی ہے بعد میں اگر وہ کسی وجہ سے پینترا بدلتے ہیں اور اپنے پرانے موقف سے مختلف کوئی بیان دیتے ہیں تو ٹیلی ویڑن چینلز والے فورا ًان کے بیانات میں تضادات کو قوم کے سامنے پیش کرتے دیتے ہیں اور قوم کی نظر میں ان کی پوزیشن دو ٹکے کی ہوجاتی ہے ۔اس محاورے میں بڑی دانش پنہاں ہے کہ پہلے تولو پھر بولو قوم سے وہ وعدہ نہ کیا جائے کہ جو کل پھر پورا نہ کیا جا سکے یہ کل ہی کی بات ہے جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماو¿ں نے نے بڑے بلندوبانگ دعوے کئے تھے کہ وہ اسلام آباد پر لانگ مارچ کی شکل یلغار کریں گے اور یہ کہ وہ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں سے بھی استعفے دے دیں گے بادی النظر میں لگتا ہے کہ وہ اپنے ان دونوں بیانات سے دھیرے دھیرے اب پیچھے ہٹ رہے ہیں لانگ مارچ کے بارے میں اب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ شاید اب امسال اکتوبر تک موخر کیا جا سکے فی الحال تو انہوں نے سردی کے موسم کی شدت کا بہانہ بنایا ہے اس کے بعد یقینا لانگ مارچ کو ملتوی کرنے کےلئے ان کے پاس اور کئی بہانے موجود ہونگے جیسا کہ رمضان شریف عیدین اور پھر محرم الحرام اور یہ بات جا کر کہیں اکتوبر 2021 تک طول پکڑ سکتی ہے اور اس کے بعد یا قسمت یا نصیب ‘ بقول شاعر کون جیتا ہے تیری زلف کے سرہونے تک کچھ یہی صورت حال استعفوں کے بارے میں بھی نظر آرہی ہے چونکہ پی پی پی سر دست اسمبلیوں سے استعفے دینے کے حق میں نہیں ہے اور مارچ کے سینٹ الیکشن میں بھی بھرپور انداز میں حصہ لینے کی خواہش مند نظر آتی ہے لہذا لگتا یہ ہے کہ یہ معاملہ بھی کھٹائی میں پڑنے والا ہے ہم من حیث القوم تضادات کا شکار ہیں جب بھی ہمارے سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ قوم کو نہ جانے کیا کیا سنہرے خواب دکھلاتے لیتے ہیں پر جب ایک مرتبہ وہ الیکشن جیت کر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتے ہیں تو پھر رات گئی بات گئی والی بات ہو جاتی ہے پھر قوم سے کیے گئے تمام وعدے وعید انہیں بھول جاتے ہیں اس ملک کی تقریبا ہر سیاسی پارٹی نے نے کم و بیش اسی قسم کے قوم سے وعدے کیے جنہیں وہ اقتدار میں آنے کے بعد بھول گئے اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج اس قسم کے سیاستدانوں کی زبان پر کوئی سرے سے اعتبار ہی نہیں کرتا ایک طرف تو یہ تلخ حقائق ہیں جن کا ذکر ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے اب ذرا آئیے ایک طائرانہ نظر ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر ڈالیں جسے دیکھ کر ملک کے ہر ذی شعور محب وطن شخص کو دکھ ہوتا ہے ‘اگلے روز ایک ماہر معاشیات سے ہماری ملاقات ہوئی جس کے دوران موصوف نے بعض ایسے سوالات اٹھائے کہ جن کا کم از کم ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا انہوں نے کہا کہ 18 اپریل 2018 کو سابق حکومت نے ایک ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اجرا کیا تھا اور حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ جو لوگ اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گےان کی آئندہ نسلیں بھی روئیں گی موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اس ضمن میں اقدامات اٹھانے کے بجائے ایک نئی ایمنسٹی سکیم کا اجرا کر دیا لیکن یہ قانون سازی کر لی کہ ناجائز اثاثے ظاہر نہ کرنے کی صورت میں سات سال قید اور اثاثوں کی بحق سرکار ضبطگی کی جائے گی حکومت کے پاس ناجائز جائز اثاثے رکھنے والوں کی طویل فہرست موجود ہے اور اگر ملک کے اندر موجود ان ناجائز اثاثوں پر ہاتھ ڈالا جائے تو حکومت کو چند ماہ میں تقریبا نو سو ارب روپے کی وصولی کی جاسکتی ہے۔