پاکستان کے اندر کرپشن کے خلاف جاری مہم اس وقت تک مکمل طور پر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی کہ جب تک کرپٹ عناصر کے ساتھ اسی قسم کا سخت سلوک نہ کیا جائے کہ جس طرح چین میں کیا جا رہا ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ اگرکوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ کرپشن میں ملوث کسی ملزم کو گرفتار کرے تو فورا ً یار لوگ شور مچا دیتے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے مفاد پرستوں نے ایسے حلقے بنا ئے ہوتے ہیں جو فوراً متحرک ہو جاتی ہیں حتی کہ وہ اپنے درمیان موجود کالی بھیڑوں کے حق میں سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں اور جلسے جلوسوں پر بھی اتر آتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق وہ میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں اس ملک سے کرپشن محض اس لیے ختم نہیں ہو رہی بلکہ الٹی بڑھ رہی ہے کہ یہاں پر جزا و سزا کا عمل ناپید ہے۔اگلے روز چین کے شمالی شہر تیانجن کی ایک عدالت نے ملک کے سب سے بڑے کرپشن کے کیس میں ہوا رونگ ایسٹ مینجمنٹ کمپنی کے سابق چیئرمین کو سزائے موت سنادی تیانجن کی سیکنڈری انٹرمیڈیٹ پیپلز کورٹ کے مطابق ملزم لایی زیامین کو 2008 سے 2018 کے دوران جب وہ سینئر بینکاری ریگولیٹر تھے مجموعی طور پر 17 سو 88 ارب یوان تقریبا 276 ملین ڈالر رشوت لینے یا مانگنے کا مجرم قرار دیا گیا لای زیامین کو 2018 میں کیمونسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا عدالت نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ملزم لاقانونیت پسند اور انتہائی لالچی تھا چین میں تو سزائیں اتنی سخت ہیں کہ کرپٹ شخص کو بھلے وہ سیاسی طور پر کسی بڑے عہدے پر کیوں نہ فائز رہا ہو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ انسان شیطان کے بہکاوے میں روز اول سے آرہا ہے اور تا قیامت آتا رہے گا اور کرپشن کسی نہ کسی صورت میں ہوتی رہے گی پر جس قسم کی سخت سزائیں چین میں دی جا رہی ہیں ان کی وجہ سے وہاں کرپشن کی شرح میں حیرت انگیز کمی واقع ہوئی ہے ہم بھی جب تک کرپٹ عناصرکو سخت ترین سزائیں نہیں دیں گے اس ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ ہمارے ہاں جب نیب آ رڈیننس نافذ کیا جا رہا تھا تھا تو اس وقت کئی مبصرین نے اس کی اس شق پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ جو پلی بارگین کے متعلق تھی ان کی نظر میں یہ شق کرپٹ عناصر کو سزا سے بچنے کیلئے فرار کا ایک قانونی راستہ فراہم کردے گی جو انصاف کے اصولوں کے خلاف ہوگا۔یہ بات اپنی جگہ ایک حد تک کافی درست ثابت ہوئی اور وہ اس طرح کہ جب گرفتار شدہ کرپٹ عناصر نے محسوس کیا کہ اب ان کی خیر نہیں اور ان پر جرم ثابت ہو جائے گا تو انہوں نے اس شق سے فائدہ اٹھایا اور جو سرکاری رقم انہوں نے مختلف حربوں سے کمائی تھی پلی بارگیننگ کی شق کے تحت اس رقم کا کچھ حصہ وہ سرکاری خزانے میں جمع کر کے جیل کی سلاخوں سے باہر نکل آ ئے۔ اس پلی بارگین کی شق سے ملک میں کرپشن ختم ہونے کے بجائے بڑھی ہے اور وہ اس طرح کہ جب کرپٹ عناصر کو اس بات کا یقین ہو گیا اور اس امر کی تسلی ہو گئی کہ اگر مثال کے طور پر انہوں نے کسی سرکاری منصوبے میں ایک ارب روپے کی مالی کرپشن کی ہے اور وہ پکڑے بھی گئے تو اس میں سے اگر وہ 25 کروڑ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرا بھی دیں تو وہ جیل سے رہائی پا لیں گے اور ان کے پاس باقی ماندہ75 کروڑ روپے کی رقم پھر بھی بچ جائے گی جس پر وہ اپنی باقی زندگی مزے کریں گے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک میگا کرپشن کیسز کو ناقابل معافی جرم کے زمرے میں لاکر اس میں ملوث مجرمان کو نشان عبرت نہیں بنایا جاتا اس کی تمام جائیداد بحق سرکار ضبط کرکے نیلام نہیں کی جائے گی کرپشن کا عنصر شاید ہی ختم ہو سکے ۔