مکافات عمل۔۔۔۔۔۔۔

بجلی بریک ڈاو¿ن کے حالیہ واقعے پر ہمیں ایک پرانی بات یاد آئی فیلڈ مارشل ایوب خان چین کے دورے پر تھے اور وہاں انہیں بجلی کے معاملات پر چینی حکام بریفنگ دے رہے تھے جس کے دوران ہمارے صدر صاحب نے ان سے یہ سوال کیا کہ اگر آپ کے یہاں بجلی کا کوئی بریک ڈاو¿ن ہو جائے تو آپ کیا کرتے ہیں اس پر ان ماہرین نے نے آپس میں ایک دوسرے کا منہ حیرت سے دیکھا اور ہمارے صدر سے کہا کہ ہمارے ہاں تو بریک ڈاو¿ن کا تصور ہی نہیں کیونکہ یہاں کبھی بجلی جاتی ہی نہیں اور کیا آپ کے ہاں بجلی جاتی ہے ؟یہ معلوم کرنا اور پھر قوم کو بتانا از حد ضروری ہو گا کہ کیا یہ بریک ڈاو¿ن کسی سبوتاژ کی وجہ سے ہوا یا کسی اہلکار کی غفلت کے کارن ہوا اور مستقبل میں اس قسم کے واقعات کے سدباب کےلئے متعلقہ وزارت یا محکمے نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں ۔ لگ یہ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کو اس ملک کے عام آدمی کی زندگی یا موت سے کوئی سروکار نہیں وہ بدستور ملک کے مختلف اضلاع میں تواتر سے لوگوں کو جمگھٹے کی شکل میں جمع کر رہی ہے اور اسے بالکل اس بات کی پرواہ نہیں کہ کورونا وائرس اس ملک میں اگر پھیل رہا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ آپس میں سماجی رابطے کم نہیں کر رہے سیاسی رہنماو¿ں کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ ہر معاملے میں قوم کی رہنمائی کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی دو حکومتوں کے لیڈر مکافات عمل کا شکارہوئے اگر چاہتے تو عوام کو ماموں بنانے کے بجائے ان کی زندگی آسان کرنے کیلئے ایسے اقدامات لے سکتے تھے کہ جن سے ان کے دن پھر جاتے موجودہ حکمرانوں سے اس ملک کے عام آدمی نے کافی امیدیں باندھ رکھی تھیں جو تا دم تحریر پوری نہیں ہو سکیں کیا آج ہر پانچواں آدمی بے روزگار نہیں کیا ابھی تک درآمدات برآمدات سے زیادہ نہیں یہ تو بھلا ہو غیر ممالک میں مقیم ہم وطنوں کا کہ جن کی ترسیلات سے ہماری گاڑی چل رہی ہے آخر کب تک ہم ورلڈ بنک کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہیں گے ملک میں امن عامہ بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے ہمارے دشمن ہم کو عراق لیبیا اور افغانستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں نیب کچھوے کی چال کب تک چلے گا کب ان بدعنوان افراد سے وہ لوٹی ہوئی رقم برآمدہو گی کہ جو وہ لوٹ کر عرب امارات یورپ یا امریکہ لے جا چکے ہیں اگر تو آئندہ دو ڈھائی سال میں کرپٹ افراد سے لوٹے ہوے مال کی ریکوری نہ ہو سکی تو یقین مانیے وہ پھر کبھی بھی ریکور نہیں ہو گی یہ قوم کئی مرتبہ حکمرانوں کے کئے گئے وعدوں سے مایوس ہو چکی ہے اور اب کی دفعہ بھی اگر حکمران ان کی توقعات پر پورا نہ اترے تو پھر یہ ملک ایک خونی انقلاب کی طرف بڑھ سکتا ہے یہ جو ملک میں جگہ جگہ چوری چکاری ڈکیتیوں کے واقعات میں آ ئے دن اضافہ ہو رہا ہے اس کے پیچھے بے روزگاری کا بہت بڑا ہاتھ ہے اس ملک کی تازہ ترین مردم شماری کے مطابق اس وقت اس ملک کی سب سے بڑی آبادی جوانوں کی ہے جن کی اکثریت بے روزگاری کا شکار ہے۔ اس ملک میں تقریبا ًہر سیاسی پارٹی نے اقتدار کا مزہ لوٹا اور یہ سب 1973 کے آئین کے گن گاتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کا داعی سمجھتے ہیں ان سے کوئی یہ تو پوچھے کہ کیا اس میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ جو بھی بر سر اقتدار ہو گا وہ عوام الناس کے بنیادی حقوق کا خیال رکھے گا اور کیا عوام کی دو وقت کی روٹی اس کے سر پر چھت اس کی بیماری میں اس کی دوا کا بندوبست کرنا ارباب اقتدار کی ذمہ داری میں شامل نہیں اور جب وہ صاحب اقتدار تھے تو کیا انہوں نے عوام کے ان حقوق کا پاس کیا اگر انہوں نے اپنی یہ بنیادی ذمہ داری کما حقہ پوری کی ہوتی تو آج اس ملک میں غریب عوام اس طرح نہ رلتے کہ جس طرح رل رہے ہیں ان کو باربار خرانٹ قسم کے رہنماو¿ں نے چکنی چپڑی باتوں سے ماموں بنایا ان کو نہ جانے کیسے کیسے خواب دکھلائے ۔