ایک پرانی کہاوت ہے کہ مناسب وقت پر لگایاہوا ایک ٹانکہ بے وقت کے نو ٹانکوں سے بچاتا ہے جس برق رفتاری سے اس ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اس پر آج اگرہم نے من حیث القوم بروقت قدغن نہ لگای تو کل کلاں آبادی کا سیلاب اس ملک کی معیشت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا وطن عزیز میں بہبود آبادی کے نام سے ایک وزارت تو موجود ہے پر اگر آپ اس کی کارکردگی پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو وہ چند اشتہارات تک ہی محدود نظر آتی ہے جیسا کہ بچے دو ہی اچھے یا یا کم بچے خوشحال گھرانہ جن ممالک نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ان کے اقدامات کاپی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ان کو ہم اپنا رول ماڈل بنا سکتے ہیں مثلا بنگلہ دیش نے اس مسئلے کو جس طریقے کار سے ہینڈل کیا ہم اسے اپنے لیے مشعل راہ بنا سکتے ہیں بعض ممالک نے تو یہ بھی کیا ہے کہ انہوں نے ایسے پروگرام بنائے ہیں کہ جن کے تحت خاندانوں کی مالی امداد کو شرح پیدائش میں کمی سے مشروط کر دیا گیا ہے اور کم بچے رکھنے والے خاندان کے سربراہ کو مراعات اور روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جا رہی ہے اسی طرح بعض اسلامی ممالک نے علمائے کرام کی خدمات سے بھی اس ضمن میں استفادہ کیا ہے آج وطن عزیز کی آبادی بیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور اگر ہم نے اسے کنٹرول کرنے کے لیے کوئی انقلابی اقدامات نہ اٹھائے تو عین ممکن ہے کہ ماہرین معاشیات کے اندازوں کے مطابق ہماری ا ٓبادی 2050 میں 30 کروڑ سے زیادہو جائے گی۔ اب ہم حکومت کو یہ مشورہ تو دینے سے قاصر رہے کہ وہ اس ضمن میں وہ پالیسی اختیار کرے کہ جو چین نے اختیار کی ہے کیونکہ وہاں تو ون پارٹی سٹیٹ سسٹم اور معاشرے کے کسی طبقے کی یہ جرا ت نہیں ہوسکتی کہ وہ حکومت کی طرف سے نافذ کردہ کسی حکم کی خلاف ورزی کر سکے پر 1949 کے سرخ انقلاب کے بعد وہاں پر ماو¿ زے تنگ اور ان کے انقلابیوں نے جس کمال مہارت سے اپنے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قدغن لگائی اور کامیاب ہوئے اس نے دنیا کو حیران کر دیا ہمارے کئی سیاسی مبصرین نے وطن عزیز کی بڑھتی ہوئی آبادی کو بجا طور پر ایٹم بم کہا ہے کہ جس سے اس ملک کی معاشی حالت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچے کا ازحد خطرہ ہے انیس سو ساٹھ کی دہائی میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے جہاں صنعت اور اور توانائی کے شعبوں میں بعض نہایت دوررس نتائج کے حامل میگا پراجیکٹس پر کام شروع کیا تھا وہاں بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نےکئی اقدامات کئے پر باوجود کوشش بسیار کے اس پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے جو حمایت درکار تھی وہ انہیں نہ مل سکی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ذہن میں فیملی پلاننگ کا جو پروگرام تھا وہ سو فیصد کامیاب نہ ہو سکا ان کے بعد اس ملک میں جو حکومتیں بر سر اقتدار آئیں انہوں نے تو اس معاملے کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ ان کے ایجنڈے میں شامل ہی نہ نہیں اس بے اعتنائی کا منفی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج یہ مسئلہ ایک اژدہا کی شکل میں منہ کھولے ملک کے سامنے کھڑا ہے اور حکمرانوں کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس بلا کو کیسے ٹالا جائے یا ختم کیا جائے۔