ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں بلاول بھٹو کو امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی طرف سے ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت کا ایک ہلکا سا ذکر کیا تھا آج کے کالم میں ہم امریکہ کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں وقتاً فوقتا ًمداخلت کے بارے میں وضاحت کریں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے کئی حکمران امریکہ کی حمایت کی بدولت ہی اس ملک میں بر سر اقتدار آئے اور جب وہ عوام میں کسی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو بیٹھے تو پھر اسی امریکہ نے ان کی جگہ اپنے کسی دوسرے لیڈر کو اقتدار میں لانے کے لئے کلیدی رول ادا کیا ۔بظاہر تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن اس ضمن میں پرانی پالیسی میں کوئی رد و بدل کریں پر سر دست کچھ مہینوں تک وہ امریکہ کے ان اندرونی معاملات سے نبرد آزما ہوں گے کہ جو ان کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر مناسب رویوں کی وجہ سے درپیش ہیں اس کے علاوہ واشنگٹن کو ان دنوں کو رونا وائرس کی بپتا بھی پڑی ہوئی ہے جو روزانہ سینکڑوں جانیں لے رہا ہے لگ یہ رہا ہے کہ جو بائیڈن سب سے پہلے ایران اور بھارت کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کریں گے ۔موجودہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ایسے فیصلے کرنے ہوں گے اور ایسی خارجہ پالیسی مرتب کرنی ہوگی کہ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ہمارے سامنے دو متبادل راستے ہیں پہلا رستہ تو وہی پرانا رستہ ہے کہ جس پر ہمارے حکمران چل کر واشنگٹن کا رخ کرتے آئے ہیں تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس رستے پر بار بار چلنے کے بعد ہمیں فائدہ کے بجائے نقصان ہوا ‘ہم نے اس خطے میں امریکہ کے لئے ہمیشہ نقصان اٹھایا اسی وجہ سے سابقہ سوویت یونین ہم سے خفہ ہو گیا اور اس خطے کے ان دیگر ممالک میں بھی ہمارے لئے نرم گوشہ نہ رہا کہ جو امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف تھے ‘عقلمند اسے کہتے ہیں کہ جو ماضی کی غلطیوں سے فائدہ اٹھائے ٹھوکر کھانے کے بعد انسان کو سنبھلنا چاہئے۔آج صورتحال یہ ہے کہ امریکہ نے مستقبل قریب کے لئے اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور چین کو نیچا دکھانے کے لئے بھارت کے کاندھوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے آج اس علاقے میں وہ بھارت کو بطور چوہدری استعمال کرے گا بھارت کو بھی یہ آ پشن اس لئے بھلا لگ رہا ہے کہ چین کے ساتھ اس کی پرانی عداوت ہے اور ابھی تک وہ اپنے وہ زخم چاٹ رہا ہے جو انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں چین نے ایک جھڑپ کے دوران اس کے جسم پر لگائے تھے پاکستان میں چین کی بھاری سرمایہ کاری خصوصا ًگوادر کی بندرگاہ کی تعمیر نو اور سی پیک کا عظیم الشان ترقیاتی منصوبہ یہ دونوں ایسے منصوبے ہیں کہ جو نہ صرف چین کو دنیا کی نمبر ون معاشی طاقت بنا دیں گے ان سے پاکستان کے معاشی حالات بھی کافی حد تک سدھر جائیں گے اور یہ دونوں باتیں امریکہ اور بھارت ہضم نہیں کر سکتے ان حالات میں پاکستان کے لئے اگر کوئی بہترین آ پشن رہ گیا ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم چین کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے چلے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ روس کے ساتھ بھی ہم اپنے تعلقات کو درست کریں اور پاکستان کے بارے میں روس کے جو تحفظات ہیں انہیں رفع کریں ماضی میں ہم سے ایسی حرکات ضرور سرزد ہوئی ہیں کہ جن سے ماسکو کا دل ہم سے میلا ہوا ہے ۔