تلخ مگر سچ

 کسی نے کیا خوب کہا کہ اس ملک میں کتا ویکسین نہیں جس کی دستیابی کو ہر قیمت پر ممکن بنانا ضروری ہے اور جس کے مریض ویکسین نہ ہونے کے باعث موت کا شکار ہو رہے ہیں، جب اس دیرینہ بیماری کے ویکسین موجود نہیں توکورونا ویکسین کی کیا بات کریں ہمارا معاشرہ جیسا ہے ویکسین آئی تو اس حوالے سے پہلے سے شکوک کی فضاء کھڑی کی گئی ہے اور پھر ہمارے ہاں تو دو نمبر چیز کا بننا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور جو چیز مارکیٹ میں آتی ہے اس کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ اصلی ہے بھی کہ نہیں۔ اس جملہ معترضہ کے بعد ذکر کرتے ہیں ان اہم امور کا کہ جو حکومت وقت کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں سب سے پہلے ذکر کریں گے گوادر کی بین الاقوامی بندرگاہ کا کہ جس پر تیزی سے کام جاری ہے اس ضمن میں جو بات نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بلوچستان کے مقامی افراد کو اس عظیم الشان منصوبے کی ورک فورس میں ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کیا جائے تاکہ اس سے حاصل ہونے والے معاشی ثمرات سے وہ حتیٰ الوسع مالی فوائد حاصل کرسکیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مقامی غیر ہنر مند مزدور کو نیم ہنر مند اور مکمل ٹرینڈ لیبر میں تبدیل کیا جائے تاکہ وہ پیچیدہ صنعتی یونٹوں میں ملازمت کے قابل ہوسکیں ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ گوادر مستقبل کہ امکانات سے بھرا پڑا ہے لیکن آ س پاس رہنے والے لوگوں کے بغیر مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے ماضی میں بلوچستان میں ہونے والے ترقیاتی پروگراموں کے ثمرات اگر وہاں کے عام لوگوں تک پہنچائے گئے ہوتے تو شاید آج ان میں بے اطمینانی نہ ہوتی اگر اس بے اطمینانی کو رفع نہ کیا گیا تو ہمارے دشمن اس سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے اور یہاں پر جو منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں وہ پورے ملک کی ترقی و خوشحالی کی بنیاد بنیں گے۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ یہاں پرامن و امان کی صورتحال بہتر ہو اور یہاں پر پائی جانیوالی بے چینی ختم کی گئی ہو۔ جہاں تک بھارت کے سی پیک کے خلاف بنائے گئے منصوبے ہیں تو اس ضمن میں پہلا نشانہ بلوچستان اور یہاں پر بنائے گئے منصوبے ہیں اور پھر ملک بھر میں سی پیک کے حوالے سے دیگر منصوبے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس حوالے سے بھر پور اقدامات کئے جائیں، جس طرح پاک افغان بارڈ ر پر باڑ کے ذریعے اسے محفوظ بنانے کیلئے بڑا کام کیا گیا ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی در اندازی کو پوری طرح روکنے کیلئے تیز ترین اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ایک طرف تو ہماری اسمبلیوں کے اراکین اپنی تنخواہوں میں اضافے کے جواز میں مختلف دلائل اور تاویلیں پیش کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف ان کا اپنے فرائض منصبی سے لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ ان کی غیر حاضری کی وجہ سے اکثر اجلاس منعقد کرنے کے کیلئے کورم پورا نہیں ہوتا جس کی بنا پر اسمبلیوں کے سپیکروں کو اجلاس ملتوی کرنے پڑتے ہیں نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اگلے روز ہمارے ملک کے ایک صوبے کی اسمبلی کے سپیکر کو یہ بات طنزیہ طور پر کہنی پڑ گئی کہ اگر اسمبلی کے اراکین کا اجلاسوں میں شرکت کا یہی عالم رہا تو انہیں مجبور اسمبلی کے دروازے پر بائیو میٹرک سسٹم نصب کروانا پڑے گا تاکہ ان کی حاضری لگائی جا سکے۔