آجکل اخبارات میں فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کی طرف سے شہر کے مختلف مقامات میں دودھ کی دکانوں پر چھاپوں کی خبریں چھپ رہی ہیں اور روزانہ ہزاروں لیٹر ملاوٹ شدہ دودھ پکڑ کر تلف کر دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے مگر مجال ہے کہ اس پر قابو پایا جا سکے۔ دودھ میں پانی ملانے کی بات بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ مگر اس وقت ایک بہت ہی خطرناک سلسلہ چل پڑا ہے اور وہ ہے دودھ میں کیمیکل کی ملاوٹ، جو انسانی زندگی کیلئے زہر کا کام کرتے ہیں۔ ایک دوست سے معلوم ہوا جسے ایک ڈیری فارم میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس نے بتایا کہ وہاں چند ایک بھینسیں کھڑی تھیں لیکن وہ صرف نمائشی تھیں۔ کیونکہ انکا دودھ ڈیری فارم مالکان اپنے لیے اور اپنے بہت ہی قریبی رشتے داروں کو مہیا کرتے تھے جبکہ دودھ کیمیکلز سے اس خوبصورتی سے بنایا کرتے تھے کہ اصل اور نقل کی پہچان مشکل ہوتی تھی۔ اس دودھ کو پورے علاقے کو مہیا کیا جاتا تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مگر بااثر ہونے کیوجہ سے ڈیری فارم کے مالکان کو ہاتھ لگانا تو دور کی بات انکے دودھ کو ٹیسٹ کرانے سے بھی حکام گھبراتے ہیں۔اسی طرح میرے ایک افغان دوست جنرل خان آغا بانڈے زئی جو افغانستان کی فوج میں جنرل ہوا کرتے تھے۔ مگر ڈاکٹر نجیب کے خلاف ایک ناکام بغاوت کے نتیجے میں پاکستان میں پناہ لی تھی۔ وہ بلا ناغہ میرے پاس آیا کرتے تھے اور افغانستان کی قومیتوں اور زبانوں کے حوالے سے گہری معلومات رکھتے تھے۔ میں ان کے علم سے استفادہ کرتا تھا مگر وہ کبھی بھی کالی چائے نہیں پیتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے اس بارے میں معلوم کرنا چاہا اور کہا کہ آپ مجھے قائل کرلیں کہ آپ کیوں کالی چائے نہیں پیتے؟ اس نے کہا کہ اگر میں یہ راز آپ پر افشا کر دوں تو آپ بھی کالی چائے پینے سے متنفر ہو جائینگے۔ بہرحال میں نے راز بتانے پر مجبور کیا تو کہنے لگا کہ پشاور شہر کے کوہاٹی گیٹ کے علاقے میں ہمارے چند افغانی رہائش پذیر ہیں جو بڑے پیمانے پر چائے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ایک دن مجھے انکے پاس جانے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ سارے مرد افراد چھت کے اوپر ہیں۔ معلوم ہونے پر انہوں نے مجھے اوپر بلایا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ چنے کے چھلکے، لکڑی کے برادے اور چائے کی بوریاں پڑی تھیں۔ ساتھ ہی جانوروں کے خون سے بھرے دو ٹین بھی پڑے تھے۔ چھلکے، لکڑی کے برادے اور چائے کے پتوں کو بڑی بڑی چٹائیوں پر ڈال کر اسے رگڑ رہے تھے اور ساتھ ساتھ خون کا چھڑکاؤ بھی کر رہے تھے۔ یہ تماشا دیکھ کر میں نے ان سے پوچھا کہ جو چائے آپ بنا رہے ہو وہ کہاں بیچتے ہو۔ تو معلوم ہوا کہ اسے پشاور اور اسکے آس پاس کے دیہات کو مہیا کیا جاتا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے کہیں بھی کالی چائے پینا بند کر دیا ہے۔ یہ سال 1997ء کی بات ہے۔ یہی حال گڑ کا ہے۔ پشاور شہر میں ملاوٹ کے بغیر گڑ ملنا محال ہے۔ کیونکہ گڑ میں گھانی کے اندر رنگ کاٹ ڈال کر اسکا رنگ سفید کیا جاتا ہے۔ رنگ کاٹ اصل میں ایک کیمیکل ہے جو انسانی جسم کیلئے نقصان دہ ہے۔ اسکے علاوہ اب خراب قسم کی چینی بھی گڑ میں ملائی جاتی ہے تاکہ اسکا رنگ سفید نظر آئے اور چائے بناتے وقت اس میں دودھ پھٹ نہ جائے۔حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ بڑے بڑے تاجر مصنوعی چاول بازاروں میں مہیا کرتے ہیں۔ ان چاولوں کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ یہ پلاسٹک کے بنے ہوتے ہیں۔ کینسر کے ماہر ڈاکٹروں کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کینسر کی ایک بڑی وجہ پلاسٹک کا استعمال بھی ہے۔ انہوں نے پتہ چلایا ہے کہ پلاسٹک کے برتنوں کے زیادہ استعمال سے کینسر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے اور پلاسٹک کا چاول تو بلاواسطہ جسم کے اندر چلا جاتا ہے، پتہ نہیں ا س کے کتنے مضر اثرات ہوں گے اور تو اور اب تو پلاسٹک کے انڈے بھی مارکیٹوں میں بیچے جا رہے ہیں، جو کسی بھی صورت زہر سے کم نہیں۔ملاوٹ شدہ اور دو نمبر گھی تو نہ صرف پختونخوا بلکہ پورے ملک میں عام ہے، جسکا تدارک ناممکن ہو گیا ہے۔ ایسی درجنوں دوسری خوردنی اشیاء حتیٰ کہ میوہ جات بھی ملاوٹ کی زد سے نہیں بچ سکے ہیں۔حکومتی ادارے اس مقصد کیلئے بنائے گئے ہیں کہ اس قسم کے کاروبار پر قابو پایا جا سکے۔ ایسے ادارے وقتاً فوقتاً ایسے لوگوں پر چھاپے بھی مارتے رہتے ہیں، مگر یہ کام وقتی ہوتا ہے۔ پہلے تو چھاپوں کی اطلاع ایسے عناصر کو وقت سے پہلے مل جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو سنبھال لیتے ہیں اور اگر کہیں کوئی اتفاق سے پکڑا بھی جاتا ہے تو انکے خلاف کاروائی کیلئے ایسی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جاتا ہے کہ عدالت میں اسکی ضمانت ہو جاتی ہے اور سرے سے کیس ختم ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ایسے عناصر کے خلاف کمزور دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے تو متعلقہ محکمے کے ذمہ داران کو بھی سزا دی جائے ورنہ تو یہ سلسلہ کبھی بھی ختم نہ ہو سکے گا اور یہ سلسلہ معاشرے میں ناسور کی طرح سرائیت کرتا جا رہا ہے۔ حکومت کرپشن کرپشن کے چکر میں ہے اور اس گھمبیر اور ایٹم بم جیسے خطرناک مسئلے کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔ دو نمبر دوائیاں بنانے والے ارب پتی کارخانہ داروں سے کون پوچھے گا اور اب تو بعض دوائیاں محلوں اور گلی کوچوں میں بھی بنائی جا رہی ہیں۔خدا پر یقین نہ رکھنے والے بعض ممالک میں ملاوٹ اور دو نمبر دوائیاں بنانے والوں کو گولی سے اُڑا دیا جاتا ہے۔ بہرحال اگر ہمارا آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا تو کم از کم ایسے قوانین رائج کیے جائیں کہ اول تو کوئی ایسی حرکت نہ کرے اور اگر کرے بھی تو اس کیلئے ایسی سخت سزا مقرر ہو کہ دوسرے بھی اس سے عبرت حاصل کریں۔ ورنہ تو آئندہ نسل ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج ہو کر رہ جائیگی۔