لوکل گورنمنٹ کی عام آدمی کیلئے فوائد کے بات تو اس ملک کی ہر سیاسی پارٹی نے کی پر جب وہ برسراقتدار آ ئی تو اس نے لوکل گورنمنٹ کے نظام کو بس براے نام حد تک ہی نافذ کیا جو پارٹی اقتدار میں ہواس کے منتخب اراکین کب چاہتے ہیں کہ مقامی سطح پر اختیارات کو اپنے ہاتھوں سے جانے دےں ۔رہا مسئلہ عوام کا تو سیاست دان جان چکے ہیں کہ انہیں ماموں بنانا بھلا کون سا مشکل کام ہے کیا وہ بار بار ہر چار یا پانچ سال کے بعد انہی افراد کو اقتدار کے سنگھاسن پر بار بار بٹھا کر اپنے پاو¿ں پر کلہاڑی نہیں مار رہے؟جب تک قانون سازی کر کے اسمبلیوں کے اراکین پر یہ قدغن نہیں لگائی جائے گی کہ ان کا بس یہ کام ہے کہ وہ صرف اور صرف قانون سازی کریں گے ضلع و کچہری کی سطح پر ان کا کوہی لینا دینا نہیںہوگا تب تک لوکل گورنمنٹ اس ملک میں نہیں چل سکتی پر یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون سازی تو اسمبلیوں کے اراکین نے کرنی ہوتی ہے اور وہ بھلا کیوں ایسی قانون سازی کرنے پر تیار ہوں گے کہ جس سے نچلی سطح پر سب کچھ لوکل گورنمنٹ کے منتخب اراکین کے ہاتھوں میں چلا جائے یہ کام یقینا ایوب خان ضیاءالحق اور مشرف کر سکتے تھے کہ جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے پر یہ اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے کبھی اس بابت سوچا تک نہیں ہاں البتہ اگر سول سوسائٹی اس قدر مضبوط ہو جائے کہ وہ یہ اعلان کر دے کہ وہ الیکشن میں اس پارٹی کو ووٹ دیں گے کہ جو اپنے منشور میں یہ لکھ دے کہ وہ برسراقتدار آ کر ایسی قانون سازی کرےگی کہ اسمبلیوں کے ارکان کا صرف ایک ہی کام ہوگا اور وہ یہ کہ وہ صرف قانون سازی کرینگے تو تب کہیں جا کر بات بن سکتی ہے یہ ان کا کام نہیں کہ وہ ضلع یا کچہری کی سطح کی سیاست کریں ۔چونکہ الیکشن کی بات چل نکلی ہے تو اس ضمن میں مردم شماری کا ذکر بھی ضروریہ ہے کیوں کہ الیکشن اور مردم شماری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے عوامی حلقوں میں ماضی قریب میں ہونےوالی مردم شماری پر کئی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی کیونکہ یہ عمل ہر دس سال بعد دہرایا جاتا ہے لہٰذا دوسری مرتبہ مردم شماری 1961 میں ہوئی تیسری مردم شماری نے 1971 میں ہونا تھا پر پاک بھارت جنگ کی وجہ سے وہ 1972 میں ہوئی چوتھی مردم شماری1981میں ہوئی اور پھر پانچویں مردم شماری کرانے میں حکومت کو 17 سال لگے اور وہ 1991 میں ہونے کے بجائے 1998 میں جا کر کہیں ہوئی اسی طرح چھٹی مردم شماری بھی دس سال بعد نہ ہو سکی اور وہ انیس برس بعد 2017 میں جا کر کہیں ہوئی اور اب اس نے جا کر دس سال بعد 2027میں ہونا ہے اگر آپ ذمہ داری کی بات کریں گے تو خدا لگتی یہ ہے کہ پاکستان میں وقت مقررہ پر یعنی 1991 اور پھر 2001 اور 2011 میں مردم شماری نہ کرانے کی ذمہ داری ان حکمرانوں کے کاندھوں پر ڈالی جا سکتی ہے کہ جو 1981 اور 2011 کے دوران اس ملک کے سیاوسفید کے مالک تھے وہ سب برابر کے ذمہ دار ہیں وہ اگر پوری ذمہ داری کے ساتھ وقت مقررہ پر ملک میں مردم شماری کراتے رہتے اور اس کی شفافیت کو یقینی بنانے کےلئے تمام ضروری انتظامات کرتے تو آج جگہ جگہ شہر شہر قریہ قریہ عوامی حلقوں میں مردم شماری پر مختلف قسم کی چہ میگوئیاں نہ ہوتیں اور اس بارے میں کوئی انگلی نہ اٹھاتا 2027 کو ابھی 6 سال پڑے ہوئے ہیں بالفاظ دیگر آئندہ الیکشن تو نہیں بلکہ اس کے بعد 2028 میں جو الیکشن ہوگا وہ اس مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق ہو گا کہ جو 2027 میں ہونی ہے دنیا میں کئی ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں کہ جنہوں نے ایسے فول پروف سسٹم بنائے ہوئے ہیں کہ جن کی بنیاد پر مردم شماری میں کوئی طبقہ یا کوئی سیاسی پارٹی ڈنڈی نہیں مار سکتی چونکہ آئندہ مردم شماری ہونے میں ابھی چھ سال کا عرصہ پڑا ہوا ہے لہٰذا ابھی سے حکومت کو ان ممالک کے سسٹم کو سٹڈی کرکے پاکستان میں ایسے انتظامات کرنے چاہیں تاکہ 2027 میں جو مردم شماری ہو اس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اس ضمن میں وزیراعظم صاحب ہر تین ماہ بعد مردم شماری کے محکمے کے ارباب بست و کشاد سے تفصیلی میٹنگ کیا کریں تاکہ وہ ابھی سے آئندہ ہونے والی مردم شماری کے بارے میں متحرک ہو جائیں اس ضمن میں متعلقہ محکمے کو ابھی سے تمام سیاسی پارٹیوں کے کرتا دھرتوں کو اعتماد میں لینا ہوگا اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مردم شماری کا عمل درست خطوط پر استوار کیا جائے تو اس کے کئی فوائد ہیں اگر مردم شماری کے اعداد و شمار درست ہوں گے تو تو ان سے کسی بھی طبقے کے حقوق کی حق تلفی نہ ہو گی اور کسی طبقے میں احساس محرومیت پیدا نہ ہو گا اور جب ہر صوبے ہر علاقے کو ان کی آبادی کے مطابق ملک کے ترقیاتی عمل میں شامل کیا جائے گا تو پورے ملک میں یکجہتی کا ایک احساس پیدا ہوگا ۔