یا تو اسلام آباد کے ریڈ زون کے اندر کسی پرندے کو پر مارنے کی اجازت نہیں تھی اور یا پھر گزشتہ منگل کے دن وزارت داخلہ نے دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے رہنماو¿ں کو ایک لشکر کے ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفاتر کے سامنے مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کر دیا کہ جو ریڈ زون کے اندر واقع ہے کیا اب یہ ایک روایت نہیں بن جائے گی کہ جس کا دل کسی سرکاری ادارے کے خلاف کسی بات پر احتجاج کرنے کو چاہے گا تو وہ ریڈ زون کو موچی گیٹ لاہور چوک یادگار پشاور یا لیاقت باغ راولپنڈی سمجھ کر وہاں جلسہ کر دیا کرے گا ریڈ زون کے اندر دوسرے کئی اہم ریاستی اداروں کے دفاتر بھی واقع ہیں لہذا جس کسی کو بھی ان اداروں سے کوئی گلہ ہوگا تو وہ منہ اٹھائے اپنے ساتھ ایک جلوس لے کر وہاں پہنچ جایا کرے گا ۔ احتجاج کرنا یا کسی ریاستی ادارے کی توجہ اس کی کسی معاملے میں سست روی کی طرف مبذول کرانا کوئی غلط بات نہیں پر اس کیلے ایسا طریقہ کار اپنانا چاہئے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے بغیر کسی شور شرابہ اور ہلہ گلہ کے متعلقہ اداروں کی توجہ ان کی کسی مبینہ کوتاہی کی طرف پر امن اور شائستہ طریقے سے بھی تو مبذول کرائی جا سکتی ہے اور پھر آج کل تو الیکٹرونک میڈیا کا زمانہ ہے ماضی میں تو ٹھیک ہے کہ چونکہ احتجاج کے ذرائع بڑے محدود تھے تو احتجاجی بہ امر مجبوری سڑکوں پر نکل آتے تھے یا جلسے اور جلوس کا انعقاد کرتے تھے پر آج کل تو انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ان کا کام کافی حد تک آسان اور کم تکلیف دہ کر دیا ہے اب تو وہ اپنے دل کی بات ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام الناس تک بھی پہنچا سکتے ہیں اور ان اداروں کے نوٹس میں بھی لا سکتے ہیں کہ جن کے بارے میں انہیں کوئی شکایت ہے ان کا کام اب کافی آسان ہوگیا ہے بقول کسے ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے آج کل تو سیاسی لڑائیاں میڈیا پر لڑی جاتی ہیں اور میڈیا پر لڑی جانے والی جنگیں کافی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں پی ڈی ایم والوں نے فارن فنڈنگ کا معاملہ اٹھا تو رکھا ہے پر سوچنے کا مقام یہ ہے کہ جس قسم کا الزام وہ حکمران پارٹی پر دھر رہے ہیں کیا اسی قسم کا کام ان سے کہیں سر زد تو نہیں ہوا کیا عجب کہ کل کلاں اگر اس معاملے میں کوئی تفصیلی انکوائری ہوتی ہے تو اس میں ان کو کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ۔اگر اس معاملے کو ذرا باریک بینی سے دیکھا جائے تو غالب امکان یہی ہے کہ تمام پارٹیاں آپ کو اس حمام میں ننگی نظر آئیں گی یہ تو غالباً پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے فنڈز پر اتنی لے دے ہو رہی ہے ورنہ کل تک تو یہ لوگ اپنے آپ کو اس معاملے میں مادر پدر آزاد سمجھتے تھے ان سے بھلا کون پوچھ سکتا تھا کہ بھائی ذرا اپنی تلاشی تو دو یہ عوامی شعور اور بیداری خوش آئند بات ہے پر اس ملک کے سنجیدہ سماجی اور سیاسی حلقے البتہ اس قسم کے مسائل پر بات چیت اور انہیں حل کرنے کیلے صرف پار لیمنٹ کو ہی موزوں جگہ سمجھتے ہیں۔