نظام حکومت۔۔۔

 اب تو اس ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا اس دھرتی میں صرف ایک ہی سیاسی پارٹی نہیں ہونی چاہئے‘ ملٹی پارٹیز پر مبنی یعنی ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کے نظام حکومت کا کا تجربہ کوئی زیادہ کامیاب نظر نہیں آرہا۔خدا لگتی یہ ہے کہ اس ملک کا عام آ دمی اپنے سیاست دانوں کی ایک اکثریت سے مایوس ہو چکا ہے ور اس نے ابھی تک عوام کو صرف سبز باغ ہی دکھائے ہیں اور ان کے واسطے کسی بھی شعبہ زندگی میں کوئی ایسا ٹھوس کام نہیں کیا کہ جس سے ان کا معیار زندگی بلندہواہو‘اس ملک کے لوگوں کی اکثریت کہ جو غریب ہے وہ تو اس ملک میں چین کی طرح کا ایک ہی سیاسی پارٹی والے نظام کو پسند کرتی ہے اور یا پھر امریک میں رائج صدارتی طرز حکومت کو کہ جہاں براے راست انتخاب کے ذریعے ایک فرد کو ملک کا صدر 4 برسوں کیلے چنا جاتا ہے ان کی دانست میں مندرجہ بالا قسم کے نظام ہائے حکومت جن ممالک میں چل رہے ہیں وہاں ملک کے سربراہوں کو معمولی معمولی باتوں پر پارلیمنٹ کی محتاجی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جہاں بیٹھے لوگ عام آدمی کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہتے ہیں اور صرف انہی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ جن سے ان کا مالی مفاد وابستہ ہواب اس ملک میں یہ سوچ بھی پنپ رہی ہے کہ عام آ دمی کو تو صرف معدودے چند چیزوں سے سروکار ہے بالفاظ دیگر اسے دو وقت کی با عزت روٹی ملنی چاہئے اس کے سر پر اپنی چھت ہو اور اس کےلئے اور اس کے بچوں کے واسطے مفت طبی سہولیات میسر ہوں اور یہ کہ اس کے بچوں کےلئے مناسب تعلیم کا بندوبست ہو اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ملک میں صدارتی نظام حکومت ہو یا پارلیمانی نظام حکومت ہو یا وہ کسی ون پارٹی سٹیٹ والے ملک کا باشندہ ہو یہ باریکیاں تو سرمایہ داروں کے چونچلے ہیں 1973 کا آئین تو ایک عرصے سے اس ملک میں نافذ ہے پر کیا اس میں درج شقوں کے مطابق اس ملک کے حکمرانوں نے عوام کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم کیں کہ جو وہ اس آ ئین کے تحت عوام کو مہیا کرنے کے پابند تھے انیس سو تہتر کا آئین کوئی مقدس کتاب نہیں کہ اس میں کسی ترمیم کی گنجائش نہ ہو اگر اس کے نفاذ کے بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں اور عوام الناس کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آ سکی تو پھر اس میں کیا قباحت ہے کیا مجبوری ہے اور کیا رکاوٹ ہے کہ اس آئین کو ری وزٹ کیا جائے سر ونسٹن چرچل نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ پارلیمانی جمہوری نظام ہی دنیا کا بہترین نظام حکومت ہو اگر کل کلاں کلاں اس سے بہتر کوئی نظام وضع ہو جاتا ہے تو پارلیمانی نظام حکومت کی جگہ اسے اپنانے میں کوئی قباحت نہیںہونی چاہئے اس سلسلے میں البتہ جو مشکلات نظر آ رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ ہمارے موجودہ سیاسی لوگوں کی ایک اکثریت کہ جن کا مالی اور سیاسی مفاد اس میں ہے کہ موجودہ نظام حکومت جاری و ساری رہے وہ کسی صورت یہ نہیں چاہتی کہ سٹیٹس کوہ ڈسٹرب ہو کیونکہ چین یا امریکا کے نظاموں کی طرح وطن عزیز میں کوئی بھی نظام اگر نافذ ہو جاتا ہے تو ان کی پھر سیاست پر سے چودھراہٹ ختم ہوتی ہے اگر حکمران پارٹی کے اندر کوئی ایسا گروپ چاہے بھی کہ موجودہ پارلیمانی نظام حکومت کے بجائے کوئی دوسرا عمرانی معاہدہ عمل میں آئے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا کیوں کہ آئین میں ترمیم کرنے کےلئے پارلیمنٹ میں اسے اچھی خاصی عدوی اکثریت حاصل ہونی چاہئے جو سرِ دست حکمران پارٹی کو نصیب نہیں اس کےلئے لامحالہ اسے آئندہ الیکشن کا انتظار کرنا پڑے گا الیکشن سے پہلے اسے اپنی پارٹی کے الیکشن کے منشور میں اس بات کو واضح کرنا ہوگا کہ اگر عوام موجودہ نظام حکومت کی جگہ کوئی دوسرا عمرانی معاہدہ چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ میں اسے اکثریت کے ساتھ نشستیں دلوائیں ۔