کرِپٹو کرنسی ‘ڈیجیٹل اکانومی۔۔۔۔

اسوقت پوری دنیا میں بِٹ کوائن اور کرپٹو کرنسی کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت نے بھی ایک بہت اہم قدم اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ہم بہت جلد صوبائی سطح پر کرپٹو کرنسی رائج کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی ضیاءاللہ بنگش کا بیان بھی سامنے آیا ہے کہ صوبائی حکومت نے اس متعلق قانونی کاروائی کر دی ہے اور جو جو کاروباری افراد ان میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ صوبائی حکومت سے این او سی لیکر اپنی کرپٹو کرنسی جاری کر سکتے ہیں لیکن وہ کرنسی حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ کرنی ہو گی۔ ضیاءاللہ بنگش نے مزید کہا کہ چونکہ پوری دنیا آہستہ آہستہ پیپر(کاغذی) کرنسی سے ہٹ کر اب ڈیجیٹل/الیکٹرانک کرنسی پر آ رہی ہے اسلئے وہ یہ قدم لینے پر مجبور ہو گئے اور وفاقی حکومت پر بھی زور دیا کہ جلد از جلد کرپٹو کرنسی کو رائج کرنے کیلئے مناسب قانون سازی کرکے اسکے استعمال کیلئے راہ ہموار کرے۔یہ کرپٹو کرنسی آخر چیز کیا ہے آئیے اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔1982ءمیں امریکہ کے ایک 65 سالہ سائنس دان ڈیوڈ چَم نے کرپٹو گرافی ایجاد کی۔ اس نے اسکے متعلق اپنی تھیسس رپورٹ 1982ءمیں شائع کی۔ کرپٹو گرافی کمپیوٹر اور ڈیجیٹل دنیا میں دو پارٹیوں یا اشخاص کے درمیان پیغام رسانی کا ایسا محفوظ اور جدید ترین الیکٹرانک نظام ہے جسکو تیسرا شخص یا پارٹی بھی نہیں دیکھ یا جان سکتی۔ اسکی مثال آپ واٹس ایپ کی ہی لے لیجئے جسکو بقول واٹس ایپ انتظامیہ کے وہ خود بھی نہیں دیکھ سکتے اور دو افراد کے درمیان میسیجز یا آڈیو اور ویڈیو رابطہ بہت محفوظ ہوتا ہے تاآنکہ ان دو افراد میں سے کوئی ایک اسے افشا نہ کرے۔بہرحال وقت کے ساتھ کرپٹو گرافی کے علم میں مزید ترقی اور بہتری آئی اور 2008ءمیں ایک نامعلوم سوفٹ ویئر انجینئر نے اپنا نام ستوشی ناکاموٹو(فرضی نام) ظاہر کیا اور اس نے ٹوکن منی یعنی بِٹ کوائن ایجاد کیا۔ ستوشی ناکاموٹو کے بقول وہ 1975ءکو جاپان میں پیدا ہوئے۔ چونکہ عالمی سطح پر بِٹ کوائن کا استعمال شروع میں ممنوعہ تھا اسلئے اسکے موجد نے اپنے آپکو صیغہ راز میں رکھا اور فرضی نام ستوشی ناکاموٹو اختیار کیا۔ لیکن جب سے بِٹ کوائن کا استعمال اور اسکی مانگ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے تب سے بہت سارے سوفٹ ویئر انجینئروں نے ستوشی ناکاموٹو ہونے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کون اس دعوے میں سچا ہے اور کون جھوٹا۔ٹوکن منی کوئی نہیں چیز نہیں ہے۔ چند دہائیوں پہلے کاروباری افراد کیش پیسوں کے بدلے کاغذی رسید دیا کرتے تھے اور انہوں نے ہر ٹوکن کی ایک خاص قیمت مقرر کر دی تھی جو گاہک کی قوت خرید کے مطابق ہوتی تھی اور بیک وقت زیادہ ٹوکن خریدنے پر اضافی یعنی بونس ٹوکن بھی ملتے تھے۔ مثال کے طور پر مختلف کھیل کھیلتے وقت گیمز سنٹرز میں اسکا استعمال رائج تھا جس نے اب الیکٹرانک ٹوکن کی شکل اختیار کر لی ہے۔چونکہ ایک زمانے سے مختلف کمزور قوموں اور ممالک مثلاً وینزویلا، ایران، شمالی کوریا وغیرہ پر آئی ایم ایف اور طاقت ور ممالک جیسا کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے آئے دن اقتصادی پابندیاں عائد کی جاتی آ رہی ہیں اسلئے بِٹ کوائن ان ممالک کیلئے آپس میں باہمی رضامندی سے خفیہ تجارتی لین دین کا ایک محفوظ ذریعہ بن رہا ہے۔ اس الیکٹرانک کرنسی کی ایجاد نے ان کمزور اور اقتصادی پابندیوں میں جھکڑے ممالک کیلئے دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت آسان کر دی ہے۔ مثال کے طور پر وینزویلا نے 2018ءمیں ٹوکن کرنسی کو باقاعدہ قانونی حیثیت دیکر دوسرے قوموں کے ساتھ کاروبار شروع کر دیا ہے اور اپنے کرپٹو کرنسی کا نام "پِٹرو" رکھ دیا۔ وینزویلا پر امریکہ دشمنی کیوجہ سے اقوام متحدہ نے ہر قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں اسلئے اس ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور مہنگائی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ وینزویلا کی کرنسی کا نام بولیور ہے اور ایک ملین بولیور صرف ایک ڈالر کے برابر ہے۔ اسوقت بولیور دنیا میں سب سے نچلی سطح پر ہے کیونکہ وینزویلا دنیا کا ایک چھوٹا سا غریب ملک ہے لیکن اس میں تیل کے کافی ذخائر بھی موجود ہیں۔ اس شدید معاشی بحران سے نکلنے کیلئے یہاں کی حکومت نے ایک اہم قدم اٹھایا اور کرپٹو کرنسی کو رائج کر دیا اور اب آہستہ آہستہ معاشی طور پر بہتر ہو رہا ہے۔اسی طرح مشہور سوشل میڈیا ایپ فیس بک کی انتظامیہ نے بھی اپنی کرپٹو کرنسی کو "لِبرا" کا نام دیکر مستقبل میں اس میں کاروبار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔کرِپٹ±و کرنسی دراصل الیکٹرانک کرنسی ہے جسمیں الیکٹرانک ٹوکن یا رسید دینا شامل ہے اور جو انٹرنیٹ اور سوفٹ ویئر کے ذریعے چلتی ہے۔ چونکہ یہ معاملہ دو پارٹیوں کے درمیان خفیہ لین دین ہوتا ہے اور تیسرے گارنٹر کی اس میں موجودگی کی ضرورت نہیں ہوتی اسلئے یہ امریکہ اور آئی ایم ایف کی پہنچ اور پابندیوں کی زد سے باہر ہے۔ اس نظام میں شامل ہونے کیلئے بس مخصوص سوفٹ ویئر پر اپنی آئی ڈی اور پاسورڈ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اب کمزور ممالک آپس میں لین دین کیلئے اس طریقے کو اختیار کر رہے ہیں اور آپس میں خفیہ طریقے سے باہمی تجارت کر رہے ہیں جوکہ عام طور پر ممنوعہ لین دین سمجھا جاتا ہے۔ کچھ خوبیوں کے باوجود الیکٹرانک کرنسی کی خامیاں بھی ہیں۔ اس کرنسی کی بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ انٹرنیٹ کے ذریعے چلتی ہے جو انٹرنیٹ کی خرابی سے بہت کچھ نقصان پہنچا سکتی ہے اور انٹرنیٹ ہیکرز سے معاملہ الٹا ہو سکتا ہے۔ابھی اسی ہفتے میں بِٹ کوائن کرنسی کی قدر پورے دنیا میں دس فیصد تک کم ہو گئی اور 100 ارب ڈالرز کا خسارہ مخصوص صارفین کو اٹھانا پڑا۔ یہ بالکل 2007-8 کے معاشی زوال کی طرح ہے جو دنیا کے دو بڑے بڑے ماڈرن بینکوں ناردرن راک اور لیمین برادرز کیوجہ سے پوری دنیا خاص کر امریکہ، یورپ اور دوبئی پر آیا تھا اور جسکی وجہ سے بڑے بڑے کاروباریوں کے حصص کی قیمتیں آدھے سے بھی کم ہو گئی تھیں اور کافی بڑے بڑے کاروباری اشخاص غم کے مارے دل کے دورے سے مر گئے تھے جبکہ نوکر پیشہ اور عوام الناس کا تو بہت ہی برا حال کردیا تھا۔ بالکل یہی حال مستقبل قریب میں اس الیکٹرانک کرنسی کا ہونے والا ہے اور نہ جانے کتنے کاروبار اور گھر اجڑیں گے۔