سیاسی نشیب و فراز۔۔۔۔۔۔۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ عظمت سعید صاحب ایک نہایت ہی دیانت دار اور قابل جج رہے ہیں پر کیا یہ بہتر نہ ہوتا اگر حکومت از خود کسی جج کو براڈشیٹ کے معاملے میں تحقیقات کرنے کے لئے نامزد کرنے کے بجائے یہ کیس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حوالے کر دیتی اور ان سے درخواست کرتی کہ وہ کسی حاضر سروس جج کے ذریعے اس معاملے کی چھان بین کرائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے ایسا کرنے سے اعتراضات کا وہ پنڈوراباکس نہ کھلتا جو اب کھل چکا ہے۔شراکت کی ہانڈی بسا اوقات چوراہے میں ٹوٹ جایا کرتی ہے کیا یہ باور کر لیا جائے کہ پی ڈی ایم کی قیادت بعض امور میں اختلافات کا شکار ہو چکی ہے واقفان حال کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے پی ڈی ایم سربراہی اجلاس چار فروری کو طلب کرلیا ہے اور وہ حتی الوسع کوشش کریں گے کہ پی پی پی اور ن لیگ کے مابین بعض امور پر جو اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے اسے دور کریں واقفان حال کا یہ کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا زور توڑنے کے لیے وزیر اعظم صاحب نے گزشتہ چند روز سے اراکین اسمبلی کے ساتھ براہ راست رابطے قائم کرنا شروع کر دئیے ہیں جو سیاسی طور پر ایک اچھا اقدام ہے پر یہ رابطے اگر وہ روز اول سے تواتر کے ساتھ ان اراکین کے ساتھ رکھتے تو شاید آج ان کے سیاسی حریفوں میں سے کسی کی جرات نہ ہوتی کہ وہ تحریک عدم اعتماد کا خیال تک بھی اپنے دماغ میں لا سکتا بہرحال دیر آید درست آید ہمارے ملک میں کہنے کو تو پارلیمانی جمہوریت ہے پر پارلیمانی جمہوریت کے جو تقاضے ہیں انہیں شاذ ہی کوئی ملحوظ خاطر رکھ رہا ہے وزیراعظم کا منصب پارلیمنٹ کا محور ہوتا ہے اور اراکین پارلیمنٹ کو ہر معاملے میں اعتماد میں لینے کےلئے وزیر اعظم کو ان کے ساتھ تواتر سے گفت و شنید کرنا پڑتی ہے بھلے ان کا تعلق اپوزیشن سے ہی کیوں نہ ہو اگر اس قسم کی روش کوئی وزیراعظم اختیار نہ کرے تو وہ بسا اوقات سیاسی طور پر بالکل تنہا رہ جاتا ہے اب جبکہ زرداری صاحب نے بھی طبل جنگ بجا دیا ہے ہے اور وہ اپوزیشن کو اس بات کی ترغیب دے رہے ہیں کہ موجودہ حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلئے سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ حکومت وقت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں لائی جائے ظاہر ہے زرداری صاحب اس حقیقت سے تو بخوبی باخبر ہیں کہ حکومت وقت کی قومی اسمبلی میں عدوی اکثریت نہ ہونے کے برابرہے اکثر سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ اگر وزیراعظم صاحب اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو اقتدار میں ان کا باقی ماندہ عرصہ سیاسی کشمکش میں ہی گزرے گا کیونکہ کہ اپوزیشن والوں نے آخری دم تک انہیں سکھ سے بیٹھنے نہیں دینا وہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ان کیلئے پیدا کرتے رہیں گے جس کی وجہ سے وہ اپنی پوری توجہ ملک کی معاشی حالت کو بہتر کرنے اور ترقیاتی کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کو نہیں دے سکیں گے اس لیے ان کےلئے بہتر آپشن یہ ہے کہ وہ فوری طور پر تمام اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں اور نیا الیکشن کروا کے قوم سے تازہ مینڈیٹ مانگیں موجودہ حکمرانوں کے خیر خواہ یہ تجویز بھی پیش کرتے ہیں کہ نئے الیکشن کا اعلان کرنے کے ساتھ وہ قوم کو غیر مبہم الفاظ میں یہ بات بھی بتلا دیں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے منشور پر کماحقہ عمل درآمد ہو تو اس کے لیے قوم کو انہیں قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت سے کامیاب کروانا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے ۔