دکھ بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے جب کوئی ملک اپنے قیمتی قومی اثاثے گروی رکھ کر ان کے عوض کاروبار مملکت چلانے کےلئے قرضہ حاصل کرے موجودہ حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح یہی رستہ اختیار کر لیا ہے سکوک عربی زبان کا لفظ ہے جسے اسلامی بانڈ کہتے ہیں اور جسے سود کے متبادل قرار گیا ہے جن حکمرانوں نے اس ملک کی یہ حالت کر دی ہے کہ امور مملکت چلانے کے لئے حکومت کو اپنے قیمتی قومی اثاثے گروی رکھنے پڑ گئے ہیں وہ نشان عبرت بنانے کے قابل ہیں یہ جاننا مشکل نہیں کہ اس صورت حال کے لئے کون ذمہ دار ہیں ظاہر ہے کہ جو لوگ گزشتہ چالیس برسوں سے اس ملک پر حکمرانی کر رہے تھے ان سب کا ملک کی معیشت کو اس قدر دگرگوں کرنے میں برابر کا ہاتھ ہے۔ اب یہ ملک کے ووٹرز کی ذمہ داری ہے ان کا فرض ہے کہ وہ جب آئندہ الیکشن ہوں تو ان لوگوں کو دوبارہ اقتدار کے سنگھاسن پر بالکل نہ بٹھائیں کہ جن کی ذاتی ہوس اور نااہلی کی وجہ سے آج ہماری معیشت خستہ حال ہے اور ہمیں مجبور اًپنا نظام چلانے کیلئے اپنے گھر کے برتن بھی گروی رکھنے پڑ رہے ہیں اس ملک میں زندگی کے ہر شعبے میں روزانہ جو ہم تنزلی کے آثار دیکھ رہے ہیں ان کی ہوسکتا ہے اور بھی کئی وجوہات ہوں پر ہمیں جو بنیادی وجہ نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ ہم میں اگر ایک طرف من حیث القوم اخلاقیات کا سخت فقدان ہے تو دوسری جانب ملک میں میرٹ کا بھی سرے سے کوئی نام و نشان ہے ہی نہیں جو افراد یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہیں معاشی اور مالی امور پر دسترس حاصل ہے وہ آج تک ایسی معاشی اور مالی پالیسی مرتب نہیں کر سکے کہ جن سے ملک میں غریب اور امیر کے درمیان جو خلیج ہے وہ کم ہو جاتی اور ملک سے وہ معاشی نظام ختم کر دیا جاتا جس میں سرمایہ دار عام آدمی کا معاشی استحصال کرتا ہے ہم اس لحاظ سے بھی بد قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ہمیں جو سیاسی قیادت ملی وہ اس معیار کی نہیں تھی کہ جس کی اس ملک کے عام آدمی کو توقع تھی انہوں نے اس قسم کی قانون سازی نہیں کی کہ جس سے ملک کی اکثریت کا مفاد وابستہ ہوتا ہے اس کے برعکس انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں قانون سازی کرتے وقت صرف مفاد پرست اشرافیہ کا خیال رکھا بیوروکریسی کا بیڑا غرق کرنے میں بھی ہمارے حکمرانوں کا ہاتھ ہے انہوں نے دانستہ طور پر جان بوجھ کر اسے مفلوج کیا اور پھر اسے سیاسی رنگ میں رنگ دیا ‘ خدا لگتی ہے کہ ان میں اکثرملک و قوم کی خدمت کی بجائے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیںورنہ ستر یا بہتر سال کا عرصہ کسی بھی قوم کی نشوونما اور ترقی کے لئے ایک بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے پر افسوس صد افسوس کہ ہم نے یہ عرصہ ضائع کر دیا چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا پروہ زندگی کے ہر شعبے میں بھلے وہ تعلیم کا شعبہ ہو سائنس کا شعبہ ہو یا معیشت کا شعبہ ہو یا صحت عامہ کا ترقی کی انتہاﺅں تک پہنچ چکا ہے کوئی مانے یا نہ مانے پر یہ ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت فرنگی ہمیں کئی ریاستی ادارے بڑی اچھی حالت میں ورثے میں چھوڑ کے گئے تھے ہم نے انہیں ترقی دینے کے بجائے تنزلی شکار کیا۔