احتیاط کا عالم۔۔۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے چیئرمین نیب کی تعیناتی پر قوم سے معافی مانگی ہے دوسری جانب چیئرمین نیب فرماتے ہیں کہ کورونا پھیلانے کے سوا ہر الزام لگ چکا پر یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال آخر کیوں پیدا ہوئی اس کے پس پردہ کون سے محرکات ہیں؟ بادی النظر میں تو نیب کا قیام وقت کا تقاضا تھا ملک میں کام کرنے والی عدالتیں فوجداری اور دیوانی مقدمات کے انبار کے نیچے دبی ہوئی تھیں اس وقت کی حکومت نے یہ محسوس کیا کہ اگر میگا کرپشن کیسز بھی ان کے حوالے کر دیے جائیں تو ان کا فیصلہ تو صدیوں تک نہیں ہو سکے گا چنانچہ نیب کی شکل میں ایک ادارہ قائم کیا گیا اور قوم کو یہ نوید سنائی گئی کہ یہ ادارہ میگا کرپشن کیسز کو سالوں میں نہیں بلکہ چند مہینوں میں نپٹائے گا یہ اور بات ہے کہ چند مہینے تو کجا کئی سالوں کے بعد بھی نیب میں چلنے والے کئی کیسز کا حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ بعض وکیل صفائی مختلف قانونی موشگافیوں کے بل بوتے پر کوشش کرتے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے ان کے موکلوں کے خلاف عدالتوں میں کیسز معرض التوا میں پڑے رہیں پر جو بات سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ آخر نیب کے تحقیقاتی افسر اور پھر احتساب عدالتیں کرپشن کے کیسز میں انکوائری اور ان کی ٹرائل پر اتنا زیادہ وقت کیوں صرف کر دیتی ہیں ہم یہ تو نہیں کہتے کہ نیب کے تمام کے تمام پراسیکیوٹرز یا تحقیقاتی افسر اچھی شہرت کے مالک نہیں تھے اگر ایسا ہوتا تو بڑی بڑی مچھلیوں کو نہ پکڑا جا سکتا اور نہ ہی ان سے پلی بارگین کے ذریعے کروڑوں روپے ریکور کیے جاسکتے اور نہ ہی میگاکرپشن کرنے والوں کو پابند سلاسل کیا جاسکتا ہو سکتا ہے یعنی نیب نے وہ حق ایک طرح سے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے جس کے لئے اس ادارے کو وجود میں لایا گیا ہے‘ نیب کے استغاثہ کے محکمے سے تعلق رکھنے والے بعض تحقیقاتی افسران اور احتساب عدالتوں کے بعض ججوں کے انتخاب میں جو احتیاط برتنی چاہیے تھی وہ غالبا نہیں برتی گئی منصفی کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے جج کو اپنی سوشل لائف ختم کرنا پڑتی ہے اپنے تمام دوستانوں یارانوں سے اجتناب کرنا ہوتا ہے وکلا برادری اس جج کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتی ہے کہ جو ہر قسم کے تعصبات سے پاک اور صاف ہوتا ہے اور تمام وکلاءکو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے اس کی اخلاقی اور مالی دیانت داری مسلم ہوتی ہے اور اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ایک اچھا جج ہرقسم کی ضیافت میں شامل ہونے سے انکار کرتا ہے بھلے وہ سرکاری سطح کی ہو یا نجی سطح کی یعنی ایک منصف کی پوری زندگی بہت احتیاط کے ساتھ گزرتی ہے اور اس حوالے سے وہ ملاقاتوں میں بہت ہی زیادہ محتاط رہتے ہیں اگر اس طرح کا رویہ اپنایا جائے تو پھر کسی کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ اسکے فیصلوں پر اثرانداز ہوں یا ان کے ساتھ تخلیہ میں ملاقات کرنے کی جسارت کر سکتا اور اس ملاقات کی کوئی ویڈیو بناتا اور پھر اسے وائرل کرتا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر کسی انسان میں میں کوئی اخلاقی مالی یا اور کوہی اور کمزوری نہ ھو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی اسے بلیک میل کر سکے اسی لئے سیانے کہہ گئے ہیں کہ جو شخص بھی انصاف فراہم کرنے کی کرسی پر تعینات ہو اسے حکومت اچھا خاصا مشاہرہ فرا ہم کرے تاکہ وہ کسی بھی مالی مشکلات کا شکار نہ ہو اور کسی کے پیسے کی لالچ میں آ کر اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہو پاکستان کے پہلے چیف جسٹس کا نام سر عبدالرشید تھا اور ان دنوں سپریم کورٹ لاہور میں بیٹھا کرتی تھی اس وقت کے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان لاہور کے دورے پر تھے اور اس دورے کے دوران انہوں نے گورنر ہاو¿س لاہور میں میں وی آئی پیز کے اعزاز میں عشائیے کا بندوبست کیا ہوا تھا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو بھی اس عشائیے میں شرکت کا دعوت نامہ جاری کیا گیا تھا انہوں نے نے یہ کہہ کر اس عشائیے میں شرکت کرنے سے معذرت اختیار کرلی کہ چونکہ ان کی عدالت میں کئی ایسے کیسز زیر سماعت ہیں جس میں فیڈرل گورنمنٹ فریق ہے لہذا اس صورتحال میں ان کی گورنر ہاو¿س میں عشائیہ میں شرکت کا غلط سگنل عوام میں اور وکلاءمیں جا سکتا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تھا احتیاط کا عالم جو ماضی میں ہماری اعلی عدلیہ کے جج برتتے تھے۔