آج کل میڈیا کا دور ہے سوشل میڈیا نے تو جیسے تباہی مچا دی ہو اس کے ذریعے اس قدر جھوٹ سچ بولا جا رہا ہے کہ ناظرین اور سامعین کیلئے نا ممکن ہو گیا ہے کہ وہ فوری طور پر یہ جان سکیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا؟انگریزی زبان کی ایک پرانی کہاوت ہے کہ سچ نے ابھی بوٹ بھی پہنے نہیں ہوتے کہ جھوٹ آدھی دنیا گھوم چکا ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے میڈیا کو اظہار رائے کی جو آزادی دی ہے اس سے بھی غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے اور چاہے سوشل میڈیا ہے یہ مین سٹریم میڈیا ہر جگہ کچھ حدود و قیود کی پابندی کرنا لازمی ہے کیونکہ بعض اوقات بغیر سوچے سمجھے کہی ہوئی چھوٹی سی بات کے بڑے اثرات سامنے آتے ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ جس پر بھی حکومت ہاتھ ڈالے وہ یکدم انسانی حقوق یعنی یومن رائٹس کی خلاف ورزی کا راگ الاپنا شروع ہو جاتا ہے کوئی یہ نہیں دیکھتا اور سوچتا کہ اس کا موقف جائز ہے یا ناجائز میڈیا کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ہر موضوع پر ایک سے زیادہ آراءرکھنے والوں کے نقطہ نگاہ کو بیان کریں اور پھر یہ ناظرین اور سامعین پر چھوڑ دیں کہ وہ کسی مسئلے پر کیا رائے رکھتے ہیں کسی بھی ٹیلی وژن اینکر کے کنڈکٹ اور گفت شنید سے سامعین اور ناظرین کو یہ تاثر بالکل نہیں ملنا چاہیے کہ وہ خواہ مخواہ کوئی خاص سیاسی نظریہ ان پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے کسی زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ ہر ملک میں تین ایسے مقتدر اور مضبوط ادارے ہوتے ہیں کہ جو رائے عامہ پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں اور وہ ہیں انتظامیہ مقننہ اور عدلیہ ایک عرصے سے اب ایک چوتھا ادارہ جو ان کا ہم پلہ ہے منظرعام پر آ چکا ہے اور وہ ہے میڈیا یا جس دن سے نجی سیکٹر میں الیکٹرانک میڈیا نے قدم رکھا ہے اس دن سے تو میڈیا نے بے پناہ قوت اختیار کر لی ہے اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ لوگوں کا کھانا آج کل اس وقت تک ہضم نہیں ہوتا کہ جب تک وہ ٹیلی ویژن کے سیاسی پروگرام نہ دیکھ لیں اسی طرح تمام ریاستی اداروں کی یہ مجبوری ہو گئی ہے کہ وہ کسی مسئلے کی وضاحت کرنے کےلئے روزانہ ایک سے زیادہ پریس کانفرنسیں کرتے ہیںاگر آپ ٹی وی پر ہونے والے ٹاک شوز پر ایک طائرانہ نظر ڈالیںتو آپ کو یہ جاننے میں دشواری نہیں ہوگی کہ ان میں بعض کس خاص سیاسی گروپ یا طبقہ کے خیالات کو سامعین اور ناظرین پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اکثر ٹیلی ویژن اینکرز کے ٹاک شوز کا محور معروضی نہیں بلکہ موضوعی ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا کا کردار جس قدار اہمیت حاصل کرگیا ہے اس کونظر انداز کرناممکن نہیں رہا۔اب یہ ہر ناظر اورسامع پر ہے کہ وہ ان تبصروں اور تجزیوں سے کیا اثر لیتے ہیں جو رواں حالات کے ضمن میں ان چینلز پر دئیے جاتے ہیں۔میڈیا کی طاقت کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اب ارباب اختیار اور سیاست اب زیادہ محتاط رہتے ہیں کیونکہ اب ان کی ہر بات اور ہر حرکت ریکارڈ کی جاتی ہے اور وہ اپنے باتوں سے پھرمکر نہیں سکتے۔ پرانی تقریروں سے ٹوٹے سامنے لاکر ان کو لاجواب کیا جاتا ہے۔اس تناظر اداروں اور افراد کی کارکردگی بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیںاور ان کو خدشہ لگا رہتا ہے کہ کوئی ان پر نظر رکھا رہا ہے۔