اہم قومی امور۔۔۔

 وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا مشکل ہوتا ہے نیب کی کمیوں میں یہ کمی بھی شامل ہے کہ اس کے پاس استغاثہ اور تحقیقات کے شعبوں میں وائٹ کالر کرائمز میں ملوث افراد کو پکڑنے اور پھر ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے مطلوبہ عملے کا ہمیشہ سے فقدان رہا جس کی وجہ سے جرائم پیشہ مافیاز نے بھرپور طور پر قانونی موشگافیوں کے ذریعہ بے پناہ فائدہ اٹھایا اس جملہ معترضہ کے بعد اب آ تے ہیں چند اہم قومی اور بین الاقوامی امور کی جانب کہ جو آج کل میڈیا میں زیر بحث ہیں بختاور زرداری کی شادی پر سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام کو ایک مرتبہ پھر پتہ چلا کہ اسراف کسے کہتے ہیں اس شادی پر بلا مبالغہ کروڑوں روپے پانی کی طرح بہاے گئے کئی مبصرین اس شادی کو ملک کی مہنگی ترین شادیوں میں شمار کر رہے ہیں اب بھلا کون ہمارے ان سیاسی لیڈروں کی باتوں پر یقین کرے گا جو اس ملک کے غریب عوام کی حالت زار پر ٹسوے بہاتے رہتے ہیں اور ان سے کہتے رہتے ہیں کہ وہ سادہ زندگی پر ایمان رکھتے ہیں اور وی وی آئی پی کلچر کے خلاف ہیں اس موقعہ پر نہ جانے ہم کو کیوں بہلول دانا سے منسوب ایک قصہ یاد آیا۔بہلول کا یوں تو عباسی خاندان کے بادشاہ ہارون رشید کے ساتھ قریبی تعلق تھا پر وہ فطرتا ایک سادہ مزاج مجذوب شخص تھا جو باتوں باتوں میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتا تھا کتابوں میں لکھا ہے کہ عباسی خاندان کے ایک شہزادے نے اپنے لیے ایک ایک خوبصورت محل بنایا جب وہ مکمل ہو گیا تو وہ شہزادہ اس کے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا کہ وہاں سے بہلول دانا کا گزر ہوا شہزادے نے اسے آواز دے کر پوچھا دیکھو تو سہی کیا تم کو میرا نیا محل پسند آیا بہلول نے جواب دیا کہ اگر اس میں ایک خامی نہ ہو تو یہ واقعی اچھا ہے شہزادہ فورا بول اٹھا ذرا بتا تو سہی تم کس خامی کا ذکر کر رہے ہو تو بہلول نے مسکرا کر جواب دیا کہ اگر تم نے یہ حرام کی کمائی سے بنایا ہے تو یہ خیانت ہے اور اگر حلال کے پیسوں سے تم نے اس کی تعمیر کی ہے تو یہ اسراف کے زمرے میں آئے گااخبارات پڑھو یا ٹیلی ویژن کے پروگرام دیکھو تو سوائے دشنام درازی کے اور کچھ پڑھنے یا دیکھنے کو نہیں ملتا ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈروں کو اور کوئی کام آتا ہی نہیں ان کو دنیا کا سب سے آسان ترین کام یہ لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن میں بیٹھنے والی سیاسی پارٹیوں کا یہ شیوہ تو نہیں ہوتا کہ وہ صرف حکومت وقت پر تنقید ہی کرتی رہیں ان کا تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے جس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں اس سے کوئی بہتر آپشن بھی قوم کے سامنے پیش کریں اگر کسی ملک میں صحیح معنوں میں پارلیمانی جمہوریت ہو گی تو اس کی ہر سیاسی پارٹی کے اندر ایک تھنک ٹینک ہوگا بلکہ جن پارلیمانی جمہوریتوں میں صرف دو سیاسی پارٹیاں ہیں وہاں تو اپوزیشن پارٹی نے اپنی شیڈو کیبنٹ بھی بنا رکھی ہوتی ہے شیڈو کیبنٹ والی بات شاید وطن عزیز میں ممکن نہ ہو کہ یہاں سیاسی پارٹیاں چوں چوں کے مربے کی مانندہیں جو بھانت بھانت کی بولیاں بولتی ہیں اور کسی ایک نقطے پر شایدہی وہ اتفاق رکھتی ہوں ان کا آپس میں اگر کبھی وقتی طور پر کچھ عرصے کے لئے ملاپ ہو بھی جاتا ہے تو کسی مصلحت کی وجہ سے ہوتا ہے اور جب ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ بکھر جاتی ہیں۔