دنیا میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ دولت کی کثرت انسان کو اپنی اصلیت اور دوسروں کی اہمیت بھلادینے کا سبب بنتی ہے۔ دولت کا نشہ اسقدر خطرناک ہے کہ انسان نہ صرف قریبی رشتے داروں حتی کہ اپنے والدین کو بھی بھول جاتے ہیں۔ بعض تو نعوذ باللہ اپنے خالق حقیقی سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ تاریخ ایسے ہزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ اس قماش کے بندوں کا انجام ذلت اور رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ دولت کی فراوانی بہت کم لوگوں کو ہضم ہوتی ہے۔ غریب انکے سامنے خس و خاشاک سے زیادہ نہیں ہوتے۔ایک لمبے عرصے سے ہندوستان میں پانچ سو سے زائد شاہی خاندان بری طرح زوال کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ 1947ءمیں برصغیر کی تقسیم کے بعد ان شاہی خاندانوں کی زندگی ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔ ان میں سے کئی نظام، مہاراجے، مہارانیوں، شہزادوں اور شہزادیوں کے پاس انکا مال و دولت ا ب موجود نہیں اور بھارت سرکار کی طرف سے انکی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ انکے بدلے ان کو معمولی سا معاوضہ ادا کیا گیا ہے۔ ان خاندانوں میں سے بہت کم لوگ اپنی حکمت عملی سے سیاست اور کاروبار سے منسلک ہو کر اپنی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ مگر ان تمام نے اپنے عروج کے زمانے میں غریب اور نادار کی پرواہ کئے بغیر زندگی گزاری تھی۔ اکثر امیروں کے پوتے اور نواسے یہاںتک خوار ہو گئے ہیں کہ ٹیکسی اور رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ نظام فطرت کو بدلنا انسان کے بس کا روگ نہیں۔میر عثمان علی خان نظام حیدر آباد دنیا کا امیر ترین شخص ہوا کرتا تھا۔ اس نے ہندوستان کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے پانچ ٹن سونا دیا تھا۔ مگر آج اسکی اولاد اپنے حصے کی جائیداد کے حصول کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے اور اپنی قیمتی چیزیں بیچ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح اڑیسہ کا آخری حکمران راجا برج راج جو دنیا کے امیر ترین شخصیات میں شمار ہوتا تھا مگر 94 سال کی عمر میں 2015ءمیں موت سے پہلے مٹی کے بنے ایک گھر میں رہائش پذیر ہونے پر مجبور تھا۔ اسی طرح بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے کی بیوہ سلطانہ بیگم ہے جو آجکل انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔پچھلی صدی کی 70 اور 80 کی دہائی میں عدنان خاشقجی جو عرب نژاد ترک تھا، کی شہرت اور دولت کا اتنا چرچا تھا کہ شہزادے اور شہزادیاں انکے ساتھ ایک کپ کافی پینے کو اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتی تھےں۔ وہ کینیا میں موجود اپنے وسیع و عریض فارم ہاو¿س میں چھٹیاں گزارتے تھے۔ اسکی کم سن بیٹی نے آئسکریم اور چاکلیٹ کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے اپنا ایک جہاز بمعہ عملہ کے فرانس بھیجا۔ جہاں سے آئس کریم خریدنے کے بعد جینیوا سے چاکلیٹ خرید کر اسی دن جہاز واپس کینیا پہنچا۔ اسکے ایک دن کا خرچہ ایک ملین ڈالر تھا۔ لندن، پیرس، نیویارک اور سڈنی سمیت دنیا کے آٹھ مہنگے ترین شہروں میں اسکے لگژری محل تھے۔ اسے عربی نسل کے گھوڑے پالنے کا شوق تھا۔ دنیا کے کئی ملکوں میں انکے خاص اصطبل تھے۔اسکی اپنی بیوی کو دی ہوئی طلاق دنیا کی مہنگی ترین طلاق سمجھی جاتی ہے، جب اس نے 875 ملین ڈالر اپنی امریکی بیوی کے منہ پر مارے اور اسے طلاق دے دی۔ اسکی ملکیت میں ایک بہت بڑی یاٹ(بحری بیڑہ) تھی جو اپنے دور کی سب سے بڑی یاٹ تھی، جو اسوقت کے بادشاہوں کے پاس بھی نہ تھی۔ اس پر چار ہیلی کاپٹر چالو حالت میں ہر وقت تیار رہتے تھے جبکہ 610 افراد پر مشتمل خدام اور عملہ ہوتا تھا۔ وہ یاٹ بعد میں برونائی کے سلطان نے ان سے خریدی اور ہوتے ہوتے ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچی۔ ٹرمپ نے اسے 29 ملین ڈالر میں خریدی۔ اس یاٹ میں جیمز بانڈ سیریز کی فلموں سمیت ہالی ووڈ کی کئی مشہور فلمیں شوٹ کی گئیں۔ اپنی پچاسویں سالگرہ پر اس نے سپین کے ساحل پر دنیا کی مہنگی ترین پارٹی دی۔ جس میں دنیا کی 400 معروف شخصیات نے 5 دن تک خوب مستی کی۔ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کی بیٹی کی ایک مسکراہٹ پر ساٹھ ہزار پاو¿نڈز مالیت کا طلائی ہار قربان کر دیا۔ اسلحے کا بہت بڑا سوداگر تھا اور ملکوں کے درمیان وہ اسلحے کے ڈیل اور معاہدے کراتا تھا۔ سعودی عرب اور برطانیہ کے درمیان 20 ارب ڈالرز کے معاہدے کرائے۔ شراب اور شباب اسکی کمزوری تھی۔ 4 جائز اور 8 ناجائز بیویاں اسکے عقد میں تھیں۔البتہ یتیموں پر دست شفقت رکھنا، بیواو¿ں کا خیال رکھنا، مسکینوں کی مدد، سیلاب اور زلزلوں میں انسانی ہمدردی کے تحت فلاحی کاموں سے اسے نفرت تھی۔ انکا یہ جملہ بہت مشہور تھا کہ ”آدم علیہ السلام نے اپنے اولاد کی کفالت کی ذمہ داری مجھے نہیں سونپی تھی“۔ غالباً یہی وہ نقطہ تھا جس سے اس کے جاہ و جلال کے اختتام کا آغاز ہوا۔ 80ءکی دہائی میں وہ چالیس ارب ڈالرز کے اثاثوں کا مالک تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اللہ نے اس کی رسی کھینچ لی۔ اب تنزل اور انحطاط کی طرف اس کا سفر شروع ہوا۔ اربوں ڈالرز کی مالیت کے انکے ہیرے سمندر میں ڈوب گئے۔ کاروبار میں خسارے پر خسارہ شروع ہوا۔ قرضے پر قرضہ چڑھا۔ سب اثاثے فروخت کر ڈالے۔ ان کے دوست احباب اور ان کے چاہنے والوں نے ان سے نظریں پھیر لی۔ یہ ایک لمبی مدت تک گمنامی کے پاتال میں چلا گیا۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں ہے۔ پھر ایک دن لندن میں کسی سعودی تاجر سے ملاقات ہوئی۔ ان کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ اس تاجر سے کہا کہ وطن واپس جانا چاہتا ہوں لیکن کرایہ نہیں ہے۔ اس سعودی تاجر نے اکانومی کلاس کا ٹکٹ خرید کر اسے دیا اور یہ جملہ کہا کہ "اے عدنان، اللہ تعالیٰ نے فقیروں اور غریبوں پر اپنا مال خرچ کرنے اور صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ٹکٹ بھی صدقہ ہے"۔اپنے دور کا ڈالروں میں ارب پتی یہ شخص صدقے کی ٹکٹ پر عام مسافروں کیساتھ جہاز میں بیٹھ کر جدہ پہنچ گیا۔ ترکی کا یہ ارب پتی مکہ مکرمہ میں پیدا ہوا تھا۔ انکا والد شاہی طبیب تھا۔ عدنان خاشقجی ترکی میں قتل ہونے والے مشہور امریکی صحافی جمال خاشقجی کا چچا تھا۔ عدنان خاشقجی سال 2017ءکو انتقال کر گئے مگر کسی نے انکے انتقال پر آنسو نہیں بہائے۔ ایسے اشخاص کے اس طرح انجام پر اللہ تعالیٰ کی ذات پر مزید یقین پختہ ہو جاتا ہے۔ انسان جتنا بھی طاقتور اور ثروت مند ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے آگے بہت کمزور ہے۔ اپنی طاقت اور دولت کو کبھی بغاوت کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اللہ کی پکڑ بہت شدید ہے۔