حدود و قیود کی پاسداری۔۔۔

 چند دنوں کے اندر پولیس کے مبینہ ملزمان کے خلاف دو تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ اور پورا ملک ان کی زد میں ہے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پولیس سے آپ کیا توقع رکھیں گے کہ جس میں میرٹ کے بجائے سیاسی مصلحتوں اور سیاستدانوں کی سفارش پر بھرتیاں ہوتی ہوں کیا آپ کو یاد نہیں کہ ایک مرتبہ جب ایک آئی جی پولیس سے اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلی نے یہ پوچھا کہ پولیس میں تشدد کے واقعات کیوں ہو رہے ہیں تو انہوں نے ان کو برجستہ یہ جواب دیا کہ اس قسم کے واقعات تو ہوں گے کیونکہ پولیس میں سیاسی بنیادوں پر ایسے لوگ بھی بھرتی کیے جا رہے ہیں کہ کسی معیار پر پورا نہیں اترتے۔ جب تک پولیس میں خصوصا نچلے رینکس میں بھرتی طریقہ کار کے مطابق نہیں کی جائے گی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کی کارکردگی میں کوئی نمایاں تبدیلی آئے جس طرح ایک پرائمری سکول کے استاد یا استانی کی سلیکشن میں نہایت احتیاط برتنی ضروری ہوتی ہے کہ انہوں نے ملک کی نئی نسل کی شخصیت سازی میں کلیدی رول ادا کرنا ہوتا ہے اور کچے اذہان کو اچھی خصوصیات کے سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے بالکل اسی طرح پولیس کے نچلی سطح کے عملے یعنی سپاہی کانسٹیبل وغیرہ کی بھرتی کےلئے ہر لحاظ سے معاشرے کے بہترین افراد کی سلیکشن ضروری ہے کیونکہ انہوں نے ہی حکام بالا کے احکامات کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے فارسی زبان کا ایک شعر ہےخشت اول چوں نہد معمار کج ...تا ثریا میرود دیوار کج...اس شعر کا مطلب ہے کہ اگر کسی دیوار کی تعمیر میں پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی جائے تو وہ دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی بھلے وہ کتنی ہی اونچی کیوں نہ چلی جائے بالفاظ دیگر ہمیں پولیس اور انتظامیہ بلکہ ہر سرکاری محکمے میں نچلی سطح پر سرکاری اہلکاروں کی بھرتی میں اس بات کا ازحد خیال رکھنا ہوگا کہ جس قسم کے لوگ ہم بھرتی کر رہے ہیں آیا وہ اخلاقی تعلیمی مالی اور جذباتی لحاظ سے متوازن اور اچھی خصوصیات کے مالک ہیں یا نہیں بات کو ذرا آگے بڑھاتے ہیں اور اسے صرف پولیس تک ہی محدود نہیں رکھتے۔ کسی بھی پارلیمانی جمہوریت میں کئی ریاستی ادارے ہوتے ہیں ۔جیسا کہ انتظامیہ عدلیہ مقننہ وغیرہ وغیرہ آئین پاکستان میں ان سب کے لیے حدودوقیود مقرر ہیں کہ جن کے اندر رہ کر ان ریاستی اداروں نے اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے ہوتے ہیں انگلستان کے ایک سابق وزیراعظم نے لندن کے پولیس چیف کمشنر سے ایک مرتبہ کہا کہ انہیں روزانہ اپنے دفتر سے ہاو¿س آف کامنزکی کاروائی میں شرکت کے لیے جانا ہوتا ہے راستے میں ٹریفک کا بڑا رش ہوتا ہے اس لیے کیا ہی اچھا ہو اگر جب وہ اپنے دفتر سے ہاو¿س آف کامنز کی طرف جانے کے لئے اپنی گاڑی میں نکلا کریں تو اس دوران چند منٹوں کےلئے اس سڑک پر عام ٹریفک کو روک دیا جایا کرے کہ جہاں سے ان کا گزر ہوتا ہے تاکہ وہ بروقت ہاو¿س آف کامنز پہنچ جایا کریں کیونکہ رش کی وجہ سے وہ اکثر دس پندرہ منٹ لیٹ ہو جایا کرتے ہیں لندن کے چیف کمشنر پولیس نے وزیر اعظم صاحب کو کہا کہ جناب ایسا ممکن اس لئے نہیں ہے کہ اس سے عام آدمی کی آمدو رفت میں خلل پڑے گا اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ آپ وقت مقررہ سے پندرہ منٹ پہلے اپنے دفتر سے ہاو¿س آف کامنز کی طرف روانہ ہو جایا کریں تاکہ آپ بروقت وہاں پہنچ سکیں اب آپ ذرا سوچئے کہ کیا اس قسم کا جواب اس ملک کا کوئی انسپکٹر جنرل پولیس اس ملک کے وزیر اعظم کو دے سکتا ہے؟۔