علم اور دانش کی باتیں۔۔

 ہم نے سوچا کہ کیوں نہ آج اس کالم کے ذریعے ہم اپنے قارئین سے چند ایسے اقوال زرین شیئر کرلیں کہ جو آفاقی حقیقتیں ہیں نہجتہ البلاغہ علم و دانش کا ایک خزانہ ہے اس کے چند شہ پارے درج ذیل ہیں یہ اقوال اسلام کے چوتھے خلیفہ سے منسوب ہیں ۔جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا اس نے اپنے آپ کوسبک کیا اور جس نے اپنی پریشان حالی کا اظہار کیا اور ذلت پر آمادہ ہو گیا اور جس نے اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا اس نے خود ہی اپنی بے وقعتی کا سامان کر لیایہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے‘بہترین دولت مندی یہ ہے کہ تمناو¿ں کو ترک کرے‘بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے کے حملے سے ڈرتے رہو‘بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے‘اللہ کا ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کرتا ہے کہ موت کےلئے اولاد پیدا کرو برباد ہونے کےلئے مال جمع کرو اور تباہ ہونے کےلئے عمارتیں کھڑی کرو‘بیچارہ آدمی کتنا بے بس ہے موت اس سے نہاں بیماریاں اس سے پوشیدہ اور اس کے اعمال محفوظ ہیں مچھر کے کاٹنے سے چیختا ہے اچھو لگنے سے مر جاتا ہے اور پسینہ اس میں بدبو پیدا کر دیتا ہے‘کسی بندے کےلئے مناسب نہیں کہ وہ دو چیزوں پر بھروسا کرے ایک صحت اور دوسری دولت کیونکہ ابھی تم کسی کو تندرست دیکھ رہے تھے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے بیمار پڑجاتاہے اور ابھی تم اسے دولتمند دیکھ رہے تھے کہ وہ فقیر و نادار ہوجاتاہے‘چل چلاو¿ قریب ہے‘علم مال سے بہتر ہے کیونکہ علم تمہاری نگہداشت کر تا ہے اور مال کی تمہیں حفاظت کرنی پڑتی ہے اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے‘لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہوگا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا جو فاسق و فاجر ہو اور انصاف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا صدقہ کو لوگ خسارہ اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے اور عبادت لوگوں پر تفوق جتلانے کےلئے ہوگی ایسے زمانے میں حکومت کا دارومدار عورتوں کے مشورے نوخیز لڑکوں کی کار فرمائی اور خواجہ سراو¿ں کی تدبیر و رائے پر ہوگا‘دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے‘جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمہارے عیب ڈھکے ہوئے ہیں ‘تم اپنی زندگی کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور نہ اس چیز کو حاصل کر سکتے ہو جو تمہارے مقدر میں نہیں ہے اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ زمانہ دو دنوں پر تقسیم ہے ایک دن تمہارے موافق اور ایک دن تمہارا مخالف اور دنیا مملکتوں کے انقلاب وہ انتقال کا گھر ہے اس میں جو چیز تمہارے فائدے کی ہوگی وہ تمہاری کمزوری اور ناتوانی کے باوجود پہنچ کر رہے گی اور جو چیز تمہارے لئے نقصان دہ ہو گی اسے تم کو طاقت سے بھی نہیں مٹا سکتے‘لوگوںپر ایک ایسا دور آئے گا جب ان میں صرف قرآن کے نقوش اور اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اس وقت مسجدیں تعمیر زینت کے لحاظ سے آباد اور ہدایت کے اعتبار سے ویران ہوں گئی ان میں ٹھہرنے والے اور انہیں آباد کرنے والے تمام اہل زمین میں سب سے بد تر ہوں گے وہ فتنوں کا سرچشمہ اور گناہوں کا مرکز ہوں گے ‘جو شخص اپنے عیوب پر نظر رکھے گا وہ دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہے گا اور جو اللہ کے دئیے ہوئے رزق پر خوش رہے گا وہ نہ ملنے والی چیز پر رنجیدہ نہیں ہوگا جو ظلم کی تلوار کھینچتا ہے وہ اس سے ہی قتل ہوتا ہے جو اہم امور کو زبردستی انجام دینا چاہتا ہے وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے جو زیادہ بولے گا وہ زیادہ لغزشیں کرے گا جس میں حیا کم ہو اس میں تقوی کم ہوگا اور جس میں تقوی کم ہوگا اس کا دل مردہ ہو جائے گا اور جس کا دل مردہ ہو گیا وہ دوزخ میں جا پڑے گا ‘ جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے وہ تھوڑی سی دنیا پر بھی خوش رہتا ہے ۔