میڈیا،خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نے آج کی سیاسی دنیا میں بہت اہم مقام حاصل کر لیا ہے وہ انسانوں کے دل و دماغ پر دور رس نوعیت کے اثرات چھوڑنے کی اہلیت رکھتا ہے کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوا امریکہ میں ایک سروے کیا گیا جس میں دس سال کی عمر تک کے بچوں سے یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ کو اپنا ڈیڈی پسند ہے یا ٹیلی ویژن؟ تو 70د سے زیادہ بچوں نے جواب دیا کہ ٹیلی ویژن‘ یہ تو خیر کچے اذہان کی بات ہوئی ‘بڑے بوڑھوں کا بھی یہی حال ہے یورپ کے کئی ممالک میں ا ب تو 75برس سے اوپر کے ناظرین کے لئے ٹیلی ویژن دیکھنے کی کوئی فیس نہیں کیونکہ وہ بیچارے اکثر تنہائی میں رہتے ہیں اور ان سے بات چیت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا لہٰذا ٹیلی ویژن سیٹ ہی وہ واحد چیز ہوتی ہے کہ جس کے ذریعہ انسانوں کی آواز ان کے کانوں میں پڑتی رہتی ہے اور اس طرح ان کا وقت تو گزر جاتا ہے پر اس کے ساتھ ساتھ ان پر پبلسٹی کے اچھے برے اثرات بھی پڑتے ہیں‘ کئی سیاستدان جنہیں عوام نے الیکشن میں مسترد کر دیا ہوتا ہے اور سیاسی طور پر وہ جان کنی کی حالت میں ہوتے ہیں تو ان کے مردہ جسموں میں جو ادارہ دوبارہ جان ڈالتا ہے وہ الیکٹرونک میڈیا ہی تو ہے‘ ٹی وی چینلز کے بعض اینکرز راندہ درگاہ سیاست دانوں کے بار بار انٹرویوز نشر کرکے ان کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ اس ملک میں ہر سیاستدان کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی بیان بشمول اس کے فوٹو روزانہ اخبارات کے صفحہ اول پر ضرور چھپےں اور اسی طرح ہر ٹیلی ویژن چینل پر روزانہ اس کی دو تین منٹوں کے لئے فوٹیج بھی چلے۔پبلسٹی ایک دو دھاری تلوار ہوتی ہے اگر اسے میانہ روی سے استعمال کیا جائے تو اس کے نتائج مثبت آتے ہیں پر اگر بھونڈے انداز میں دن اور رات کسی بھی سیاسی شخصیت یا منسٹر کی پبلسٹی کی جائے گی تو اس سیاسی شخصیت یا منسٹر کو فائدہ دینے کے بجائے پبلسٹی نقصان پہنچا سکتی ہے‘ شیخ سعدی کا ایک قول ہے کہ کوئی پری بھی اگر کسی انسان کے گلے کا ہار بن جائے تو اس انسان کو اس سے نفرت ہونے لگتی ہے اگر ٹیلی ویژن کے ناظرین صبح ناشتے کے وقت دوپہر کے کھانے کے وقت اور پھر رات کے ڈنر کے وقت ٹیلی ویژن سکرین پر صرف ایک ہی شخص کو دیکھیں گے اور اس کی شان میں قصیدے سنیں گے تو یقیناً انہیں اس شکل سے نفرت ہو جائے گی‘ لہٰذا جو اہل کار پبلسٹی کے شعبے کے ساتھ منسلک ہیں انہیں اس معاملے میں نہایت متوازن قسم کی پبلسٹی کرنے کی ضرورت ہے اب جس بات کا ہم ذکر کرنے جا رہے ہیں اس کا تعلق بھی کم و بیش پبلسٹی کے شعبے کے ساتھ ہے پر اس کی نوعیت کچھ مختلف ہے کیونکہ اس کا زیادہ تر تعلق مختلف قسم کی مصنوعات کی عوام میں پبلسٹی کے بارے میں ہے اور یہ کام مارکیٹ میں موجود مختلف ایڈوٹائزنگ ایجنسیاں کر رہی ہیں‘ اس شعبے میں بھی اصلاحات کی سخت ضرورت ہے ہر ان مصنوعات کی جن کے استعمال سے ایک عام انسان کی صحت اور زندگی اور جسم پر اچھے یا برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ان کی پبلسٹی کرنا بڑی ذمہ داری کا کام ہے‘ اصولی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ صحت کے شعبے میں ایک ایسی اتھارٹی موجود ہو کہ جو ایڈورٹائزنگ ایجنسیز کو مصنوعات کی پبلسٹی کرنے سے پہلے این او سی جاری کرے کہ جس چیز یا اشیاءکی پبلسٹی کی جا رہی ہے ان میں کوئی ایسی چیز یا جزئیات شامل نہیں ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے انسانی صحت کےلئے مضر رساں ہو ہر ایڈورٹائزنگ ایجنسی پر یہ لازم کر دیا جائے کہ اس قسم کی مصنوعات کی پبلسٹی کرنے سے پہلے وہ اس اتھارٹی سے این او سی حاصل کرے ۔حقیقت یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے نہ صرف حکومت کے اچھے کاموں کی تشہیر ہو سکتی ہے بلکہ ان منصوبوں سے عوام کما حقہ فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں ‘ اس کے ساتھ ساتھ مختلف محکموں کی کارکردگی رپورٹ ٹس بھی اگر عوام کی معلومات کے لئے شائع ہو تو اس سے محکموں کے درمیان مسابقت کی فضاءپروان چڑھے گی اور بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانے کا سلسلہ چل پڑے گاجو حکومت اور عوام دونوں کے مفاد میں ہے۔