چیئرمین نیب نے بالکل درست فرمایا ہے کہ پلی بار گین کا مطلب کرپشن کا اعتراف ہے جب سے نیب عالم وجود میں آیا اس دن سے لے کر آج تک سینکڑوں مجرموں نے جن پر کرپشن کے الزامات تھے پلی بارگین کی شق کا فائدہ اٹھا کرکے جیل کی سلاخوں سے اپنی گلوخلاصی کرائی ہے اس لئے یہ دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے اور حیرت بھی ‘ یہ آخر کس قسم کا مذاق ہمارے اکابرین اس ملک کے لوگوں کے ساتھ کر رہے ہیں بد قسمتی یہ ہے کہ عوام کی یاداشت بھی کمزور ہے اور میڈیا بھی ان لوگوں کے نام آ شکارہ نہیں کررہا کہ جو ماضی میں بعض سیاستدانوں کےلئے بطور فرنٹ مین کام کیا کرتے تھے اور وہ میگا کرپشن کیسز میں ملوث ہو گئے تھے اور انہوں نے پلی بارگین کی شق کا فائدہ اٹھا کر جیل کی سلاخوں سے اپنی جان چھڑای تھی پلی بارگین کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے والے صرف سیاستدان ہی نہ تھے ان میں بعض بیوروکریٹس بھی شامل تھے ڈھیٹ قسم کے مجرم تو نیب کے سامنے ڈٹ گئے اور انہوں نے کر پشن سے کمائی ہوئی دولت میں سے ایک پائی بھی نیب کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور جیل کی ہوا کھانے کو ترجیح دی وہ اس بات پر تو راضی ہو گئے کہ اپنے وکیلوں کو کروڑوں روپے فیس دیں پر اس بات پر تیار نہ ہوئے کہ جو رقم انہوں نے سرکاری خزانے سے لوٹی اس میں سے کچھ رقم سرکاری خزانے میں جمع کر دیں کمزور دل رکھنے والے سیاستدان اور بیوروکریٹس نے البتہ اپنی عافیت اسی میں جانی کہ پلی بارگین کی شق سے فائدہ اٹھا کر چوری سے لوٹی ہوئی رقم میں سے کچھ حصہ نیب کو واپس کر جیل سے جان چھڑائی جا سکے ۔ یہ بات اپنی جگہ کافی وزنی ہے کہ بعض کالی بھیڑوں کو کہ جنہوں نے میگا کرپشن کی ہے ابھی تک کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا ہماری دانست میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نیب کے پاس وائٹ کرائمز کیسز میں ملوث افراد کے خلاف فول پروف تحقیقات کرنے کےلئے تربیت یافتہ عملہ یا تو بہت کم ہے اور یا بالکل ہے ہی نہیں اس طرف غالباً خاطر خوا توجہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے نیب کے میگا کرپشن کیسز یا تو غیر معمولی طول پکڑ گئے ہیں اور یا پھر عدالتوں میں ان کے مطلوبہ نتائج نہیں نکل رہے۔ اگر روز اوّل سے نیب کے متعلقہ حکام نے اس اہم امر کی طرف خاطر خواہ توجہ دی ہوتی اور اور اگر وائٹ کالر کرائمز میں ملوث افراد کو آشکارہ کرنے کےلئے پاکستان کے اندر قانونی مہارت کا فقدان تھا تو اس مقصد کیلئے نجی سیکٹر میں بیرونی ممالک سےاس شعبے میں ماہرین کی خدمات حاصل کی ہوتیں تو انہیں یہ خفت برداشت نہ کرنا پڑتی جو کام بھی نیم دلانہ انداز سے کیا جائے گا اس کا یہی انجام ہوگا ۔ اس تمام بحث کا مطلب یہ ہے کہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتاہے۔ نیب نے اگر چہ ایک بہت بڑی رقم کرپشن کرنے والوں سے لے کر قومی خزانے میں جمع کرائی ہے جس کا اعتراف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے ادارے بھی کررہے ہیں تاہم جب تک ملک سے کرپشن کی جڑیں ختم نہیں ہوںگی اور ملکی خزانے سے خرد برد کی جانےوالی تمام رقم واپس قومی خزانے میں جمع نہیں ہوتی تب تک عوام کی تسلی نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے اور جب تک اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیںآتے اس کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیرنہیں چھوڑنا چاہیے۔