کبیر سنی کا المیہ۔۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا جس طرح موت سے چھٹکارا نہیں بالکل اسی طرح اگر کوئی کبیر سنی تک پہنچ جائے تو اسے اس بیماری کا قبر میں اترنے کے وقت تک سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جس کا نام بڑھاپا ہے اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں بچپنے کی طرف واپس کر دیتے ہیں اس فرمان میں زندگی کے سفر کی طرف اشارہ ہے کہ ایک منزل تک جسم روح ساتھ چلتے ہیں اس کے بعد روح ارتقا کی طرف جاتی ہے اور جسم انحطاط کی طرف ۔وہ بڑھاپا رسواہی نہیں تو پھر کیا ہے کہ جس کے دوران آپ ازخود نہ چل پھر سکیں اور نہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے جسم کو پاک و صاف کر سکیں ہر قدم پر آپ کو کسی کے سہارے کی ضرورت ہو۔ کئی فلسفیوں نے کبیر سنی کو برا وقت بھی قرار دیا ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کی دولت آپ کے کسی کام کی نہیں ہوتی آپ کے حواس خمسہ جواب دے رہے ہوتے ہیں اور آپ کے اعضاءمیں کمزوری چلی جاتی ہے ۔ہم نے اس دنیا میں کئی لوگوں کو دیکھا ہے کہ جن کے جسم پر جب فالج گر جاتا ہے تو وہ اپنی اولاد کے لئے بھی ایک بوجھ بن جاتے ہیں اور خود بھی اپنی موت کی دعا مانگتے ہیں کیونکہ ان کی اولاد میں سے بھی اکثر بال بچے ان کو سنبھالنے کو تیار نہیں ہوتے ۔اسی کبیر سنی کا رونا مرزاغالب نے اس شعر میں رویا ہے کہ”مضمحل ہو گئے قویٰ غالب۔ وہ عناصر میں اعتدال کہاں“اگلے روز ملاکنڈ جاتے ہوئے ہم نے سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے قبرستان پر جب نظر ڈالی تو وہاں پر ایک قبر کے کتبے پر پشتو زبان میں اس شعر کو لکھا پایا” سنگا چہ تہ ئے زہ ہم داسے ووما۔ داسے بہ خاورے شے سنگا چہ شما “ یعنی کہ کبھی میں بھی ایسا ہی تھا کہ جس طرح آج تم ہواور ایک دن تم بھی اسی طرح مٹی ہو جاﺅ گے کہ جس طرح میں آج ہو چکا ۔ بزرگوں کا فرمان ہے کہ ہر انسان کو کو اگر ہر ہفتے میں نہیں تو کم از کم مہینے میں ایک مرتبہ قبرستان کا چکر ضرور لگانا چاہئے تا کہ اس میں یہ احساس برقرار رہے کہ اس کا اصل ٹھکانہ یہی ہے اور زمین کے اوپر چند برس گزارنے کے بعد اس نے نے اسی قبرستان میں آکر ابدی نیند سونا ہے کہ جس کے دورانئے کا کسی کو بھی اندازہ نہیں کہ وہ کتنا طولانی ہوگا۔زیادہ دور کی بات نہیں ماضی قریب میں ہم نے پشاور میں ایک ایسا شخص بھی دیکھا تھا جس نے اپنے آبائی قبرستان میں اپنے لئے ایک قبر کھدوا لی تھی اس قبرستان کے نزدیک ایک مسجد میں جب وہ جمعہ کی نماز ادا کرنے جاتا تو اس کے بعد وہ اپنی اس قبر کی جگہ ضرور جاتا اور جھاڑو سے سے اس کے اندر اپنے ہاتھوں سے جھاڑو دیتا اور چند لمحوں کےلئے اس میں لیٹ جاتا تا کہ اس کی لمس محسوس کرے قریب ہی اس علاقے کے جو بچے فٹ بال کھیل رہے ہوتے وہ اسے دیوانہ سمجھتے اور اس کی اس حرکت پر بڑے حیران و ششدر بھی ہوتے کوئی 25 برس تک وہ یہ ریاضت کرتا رہا حتی کہ جب اس کی رحلت ہوئی تو اس کے رشتہ داروں نے اسے اسی جگہ دفن کیا کہ جہاں اس نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لئے قبر کھدواہی تھی ویسے تو کوئی انسان بھی مرنا نہیں چاہتا بھلے وہ سو سال کی عمر کے قریب کیوں نہ پہنچ گیا ہو کسی کا دل نہیں چاہتا کہ وہ دنیا کا دامن چھوڑ دے ۔ مگر جانا سب نے ہے اور کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی خوش ہو یا خفہ اسے ایک دن موت کا سامنا کرنا ہے ۔ پس ہوشیار وہی ہے جو ا س حقیقت کو اندر سے محسوس کرے۔