یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ بانی پاکستان اور لیاقت علی خان کے بعد اس ملک کو ایسی قیادت نصیب نہ ہو سکی کہ جو عوام الناس کےلئے درد دل رکھتی جو کوئی بھی برسر اقتدار آیا اس نے بس صرف ایوان اقتدار میں اپنا وقت گزارنے کے لئے شارٹ ٹرم پالیسیاں اپنائیں اور لانگ ٹرم کثیرالمقاصد ترقیاتی منصوبوں کی طرف کسی کی نظر نہیں گئی چناچہ اس کا نتیجہ پھر یہی نکلنا تھا کہ جس کا قوم کو آج سامنا ہے ایوب خان کو چھوڑ کر اس سے پہلے اور اس کے بعد کسی لیڈر نے یہ نہ سوچا کہ اگر اس ملک میں آبادی کو کنٹرول کرنے کےلئے ٹھوس اور جامع پالیسی نہ بنائی گئی تو حکومت بھلے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرے ترقی کے ثمرات بڑھتی ہوئی آبادی نگل جائے گی۔ آج بھی نہ تو حکومت کو اس بات کا احساس ہے اور نہ ہی اپوزیشن کے کسی لیڈر کے منہ سے آپ نے سنا ہوگا کہ جس تیزی سے اس ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اس پر اگر بریک نہ لگائی گئی تو حکومت کے تمام ترقیاتی منصوبے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ ملک کا ہر سرکاری شعبہ زنگ آ لود ہو چکا ہے ایک وقت تھا جب لوگ صرف محکمہ مال اور پولیس کی لاقانونیت اور کرپشن کی شکایت کیا کرتے تھے آج شاید ہی کوئی ایسا سرکاری محکمہ بچا ہو کہ جہاں متعلقہ افراد کی مٹھی گرم کئے بغیر ان سے کوئی جائز کام بھی بروقت کرایا جا سکتا ہو تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جزا و سزا کے نظام پر شاذ ہی سو فیصد کبھی عمل درآمد ہواہو جن مجرموں کے سیاسی طور پر ہاتھ لمبے ہوں ان کو کبھی بھی اس ملک میں قرار واقعی سزا نہیں ملی سزا ہمیشہ غریب عوام کو ملی۔عمران خان ضرور چاہتے ہوں کہ اس ملک میں سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے پر ان کا المیہ یہ ہے یہ ہے کہ وہ اس پارلیمانی جمہوریت میں وزیراعظم ہیں کہ جس میں ان کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں اتنی عدوی قوت میسر نہیں کہ وہ اپنے زور بازو پر عوام کی فلاح کےلئے انقلابی اقدامات اٹھا سکیں یا ایسے قوانین پاس کرا سکیں کہ جو عوام دوست ہوں نہ کہ خواص دوست پارلیمانی جمہوریت میں اگر برسر اقتدار لوگ اقتدار میں رہنے کےلئے اپنے اتحادی سیاسی پارٹیوں کی آشیرباد کے محتاج ہوں تو وہ کبھی بھی وہ کام نہیں کر پاتے جو اپنے عوام کی فلاح کےلئے ان کے من میں ہوتا ہے عمران خان اس صورت حال سے دوچارہیں اور شاید اگلے الیکشن تک وہ اس میں مبتلا رہیں غیر جانبدار سیاسی مبصرین ان کی اس مجبوری سے اچھی طرح باخبرہیں ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں۔ ہمارا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ بس موجودہ حکمران ہی عقل کل ہیں پر سوال یہ ہے کہ ایک طرف عمران خان ہیں اور دوسری جانب وہ کہ جو ایک مرتبہ نہیں کئی کئی مرتبہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ چکے ہیں آئندہ الیکشن میں فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالنا ہے سینٹ کے الیکشن میں اوپن بیلٹنگ پر ملک کے دانشوروں کی آ را ءسے اس ملک کے لوگ اب اچھی طرح باخبر ہو چکے ہیں اوپن بیلٹنگ کا مطالبہ ہواہی اس وجہ سے تھا کہ اس الیکشن میں کھلے عام ووٹوں کی بولی لگتی اور زیادہ سے زیادہ بولی لگانے والا اس مقتدر ادارے کا چھ سالوں تک رکن بن جاتا ہر ایک کو حصہ بقدر جثہ اس کو کمشن ملتا لہٰذا جن لوگوں نے اسے ضمن میں پارلیمنٹ سے قانون سازی کرنا ہوتی ہے ان سب کا مفاد اس بات میں ہے کہ یہ کاروبار جاری و ساری رہے کیونکہ کون اپنے جاری رزق پر ہاتھ مارتا ہے۔