پاکستان کی سینٹ کے الیکشن کے دوران ہونے والی ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں اب تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی یہ زمانہ تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اور کیمرے کی آنکھ سے کوئی مخفی نہیں رہ سکتا‘تاہم اس سب کیساتھ انکوائری رپورٹ کا انتظار بھی کیا جانا ضروری ہے‘سینٹ کا الیکشن ایک نہایت ہی منافع بخش تجارت کا روپ اختیار کر چکا ہے جن افراد کے پاس دولت کا انبار ہوتا ہے وہ سینٹ کی سیٹ خریدنے کے لئے بولی لگاتے ہیں‘سینٹ کی سیٹ کا ٹکٹ دینے کا اختیار سیاسی پارٹیوں کے جن اکابرین کو ہوتا ہے وہ بھی مزے میں ہوتے ہیں اور جو سیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی‘کتنے دکھ کی بات ہے کہ بلوچستان میں سینٹ کی سیٹ کی قیمت 70 کروڑ تک جا پہنچی ہے اب جو شخص 70 کروڑ لگا کر سینٹ کا ممبر بنے گا تو کیامختلف حیلوں اور حربوں سے اس رقم سے چار گنا زیادہ رقم اپنی سینٹ کی رکنیت کے دوران کمائے گا۔اب آپ خود ہی سوچئے گا کہ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ اگر سینٹ کا الیکشن اوپن بیلٹنگ کے ذریعے ہو تو کسی کی بھی جراء ت نہیں ہو سکتی کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کر سکے‘یہ ہارس ٹریڈنگ والا سلسلہ خفیہ بلیٹنگ کی پیداوار ہے جب دنیا کے مختلف ممالک کے حکمرانوں کو یہ خبر پہنچتی ہوگی کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے اکثر سیاستدان خفیہ بیلٹنگ کے ذریعے اپنے ملک میں ہارس ٹریڈنگ کو فروغ دے رہے ہیں تو وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے اور اس سے اس ملک کی نئی نسل کو کیا سگنل جاتا ہوگا؟پاکستان میں ہونے والے مختلف اقسام کے الیکشن میں جس کرپشن کا رونا ہم آج رو رہے ہیں یہ رونا آج سے کئی برس پہلے ائیرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان رو چکے ہیں وہ بلاشبہ ایک ایسے شخص تھے کہ جن کی راست گوئی مسلم تھی وہ نہایت ہی سچے اور کھرے انسان تھے نہ صرف یہ کہ پاکستان فضائیہ کے اندر ان کا سروس ریکارڈ شروع سے لے کر آخر تک بے داغ رہا پاک فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت نے ان کی خدمات سے سے فائدہ اٹھایا انہوں نے جہاں جہاں ملازمت کی وہ ہر لحاظ سے مثالی تھی اور لوگ آج بھی ان کی دیانت داری اور اچھی کارکردگی کی مثالیں پیش کرتے ہیں‘ ریکارڈ پر ائیر مارشل اصغر خان مرحوم کا وہ خط موجود ہے جو انہوں نے سابق چیف جسٹس شیخ ریاض حسین کو لکھا تھا کہ 1990ء کے الیکشن میں سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے بارے میں ان کی درخواست کی جلد سماعت کی جائے کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ جن پر الزامات ہیں وہ 2002ء کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور احتساب کا مقصد ختم ہو سکتا ہے انہیں جلد سماعت کی اس درخواست کا کوئی جواب نہ ملا وہ اس انتظار میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے‘گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں سرکاری ملازمین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں کئی لوگ زخمی ہوئے اظہار رائے ہر انسان کا بنیادی حق ہے پر اس کے لئے ایک تہذیب یافتہ طریقہ کار اپنانا چاہئے تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘ اس ضمن میں امن عامہ سے تعلق رکھنے والے اداروں یا ڈیوٹی مجسٹریٹ اور پولیس کے عملے کی ذمہ داری مظاہرین سے زیادہ ہوتی ہے‘طاقت کا استعمال اتنا ہی ہونا چاہئے کہ جو مظاہرین کے لئے قابل برداشت ہو اور حتی الوسع آنسو گیس یا ڈنڈے کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے‘ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے کہ بروقت اقدام کرکے لوگوں کے کسی بھی غیر قانونی مجمع کو جمع ہی نہ ہونے دیں۔