میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو۔۔۔

 آغا شورش کاشمیری ایک مشہور صحافی تھے ایک لمبے عرصے تک انہوں نے لاہور سے چٹان کے نام سے ایک جریدہ نکالا وہ بڑے بے باک سچے انسان تھے مشہور مقرر سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے طرز بیان میں لکھتے بھی تھے اور تقریر بھی کرتے تھے ان کا ایک مشہور شعر ہے
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
آگے کے شعر میں انہوں نے سیاست کو کس سے تشبیہ دی اس س قطع نظر ان کا مندرجہ بالا شعر حسب حال ہے ان کے زمانے میں بھی سیاست کا یہی رنگ تھا جو آج ہمیں وطن عزیز میں نظر آرہا ہے اور شورش کاشمیری صاحب کا زمانہ کوئی زیادہ دور کا زمانہ نہیں،دنیائے سیاست میں سے کچھ سیاستدانوں کی ایک دوسرے کے خلاف وہی دشنام طرازیاں وہی بے اصولی سیاست وہی جوڑ توڑ وہی پیسے کی ریل پیل وہ اقربا پروری ‘خیال تو یہ تھا کہ پارلیمانی جمہوریت کی راہ پر چل کرہمارا ذہنی اور سیاسی ارتقاءہوگا پارلیمانی جمہوریت کے داعی ہمیں یہ تسلی دیا کرتے تھے کہ کسی وقت برطانوی پارلیمانی جمہوریت کا بھی یہی حال ہوا کرتا تھا کہ جو آج ہمارا ہے پر وقت کے ساتھ ساتھ اگر ان کا سیاسی ارتقاءہوا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا نہ ہو پر وقت نے ثابت کیا کہ یہ محض ان کی طفل تسلیاں تھیں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی معاشرے میں بعض ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے کہ جو خدا کا خوف تو دل میں نہیں رکھتے تھے پر اپنی شہرت کے خراب ہوجانے کے خوف سے کرپشن میں مبتلا نہ ہوتے تھے اس معاشرے میں اب اس قسم کے لوگ بھی کم ہوتے جا رہے ہیں ہمارا معاشرہ کئی حوالوں سے زوال پذیر ہوچکا ہے ‘پوچھ گچھ اور تحقیق کو معاشرے سے بالکل نکال دینا بھی کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں اس کا اطلاق گھر کے اندر سے ہونا چاہئے گھر کے بڑے بزرگوں کو اپنے اہل خانہ کے ہر اقدام کی تحقیق کرنی چاہئے ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات کی سو فیصد تسلی کریں کہ گھر کے جو افراد بھی مالی طور پر اس گھر کو چلا رہے ہیں ان کا ذریعہ آمدنی کیا ہے کیا ان کے اخراجات ان کی آمدنی سے زیادہ ہیں اور اگر ایسا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے ذرا اپنے الیکٹرونک میڈیا پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیجئے گا تو آپ کو کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم چاہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں کیا ہمارا الیکٹرونک میڈیا ایسے پروگرام نشر نہیں کر رہا جو ہمارے نظریاتی موقف سے متصادم ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے روز مواخذے کی کاروائی کے دوران ان کے حامیوں نے جس ہلڑ بازی کا مظاہرہ کیا اسی قسم کا سماں وطن عزیز کی عدالتوں کے سامنے اکثر دیکھنے کو ملتا ہے جب بھی کسی عدالت میں کسی سیاسی رہنما کی کسی مقدمے میں پیشی کا دن ہو تو اس دن اس کے حامی عدالت پر رعب ڈالنے کےلئے اس کے احاطے کے باہر جمع ہو جاتے ہیں امریکہ جیسے ملک میں جس قسم کی جمہوریت کا مظاہرہ ہم نے حال میں دیکھا ہے اور دیگر کئی ممالک میں جس طرح طرح پارلیمانی جمہوریت کے نام پر موروثی سیاست کو فروغ دیا گیا ہے اسے دیکھ کر کبھی کبھی سابق برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل کا وہ فرمان یاد آ جاتا ہے کہ میں یہ تو نہیں کہتا کہ پارلیمانی جمہوری نظام حکومت ہی دنیا کا سب سے بہترین نظام حکومت ہے اگر کل اس سے کوئی بہتر نظام پیدا ہو جاتا ہے تو اسے اپنانے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے ۔