قانون اور سیاست۔۔

ہمارے ہاں بھی برطانیہ کی طرح لا ءآف ٹورٹ یعنی قانون ضرر رسانی یا دیوانی ہرجانے کا قانون موجود ہے اس قانون کے پس پردہ پنہاں فلسفہ یہ ہے کہ اگر کوئی محکمہ از خود یا کسی کی انگشت پر کسی کے خلاف ایسا مواد چھاپے یا نشر کرے کہ جو حقیقت پر مبنی نہ ہو اور جس کی وجہ سے اس کی شہرت کو زک پہنچی ہو تو وہ عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ کر سکتا ہے‘ انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ جھوٹ نے آدھی دنیا کا سفر طے کر لیا ہوتا ہے جب کہ سچ نے ابھی بوٹ بھی پہنے نہیں ہوتے ‘یورپ میں ایک دور ایسا بھی گزرا جب آ ئے دن لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتیں اس روش کو مندرجہ بالا قانون نے کافی حد تک کنٹرول کیا ‘وطن عزیز میں البتہ قانون ضرر رسانی یا دیوانی ہرجانے کے قانون کا اطلاق صحیح معنوں میں اس شدت کے ساتھ ابھی تک دیکھنے میں نہیں آ رہا کہ جو وقت کا تقاضا ہے اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں پر ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جو بات کسی مطعون شدہ فرد کو عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ اگر وہ عدالت چلا گیا تو پھر اس کے خلاف خبر شائع کرنے والے شخص کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے اس پر تفصیلی جرح کرے اور اس صورت حال سے ہر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے والا فرد اس لئے ہچکچاتا ہے کہ مبادا اسے لینے کے دینے نہ پڑ جائیں کیونکہ کراس ایگزیمینیشن یا جرح کے دوران جرح کرنے والے کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ہتک عزت کا دعویٰ کرنے والے کی زندگی سے جڑے ہوئے ان معاملات پر بھی سوال کرے کہ جو فی الحال عوام سے کسی نہ کسی وجہ اب تک پوشیدہ رہے ہوں اب ظاہر ہے ہر انسان خطا کا پتلا ہوتا ہے ‘زندگی میں اس سے کئی لغزشیں سرزد ہوئی ہوتی ہیں جو اس جرح کے دوران آشکارا ہو سکتی ہیں اور اسی خدشے کے پیش نظر اکثر افراد ازالہ حیثیت عرفی کے تحت مقدمہ بازی سے دریغ کرتے ہیں ‘آپ نے ضرور یہ دیکھا ہوگا کہ وطن عزیز میں ہتک عزت کے دعوے زیادہ سے زیادہ نوٹس کے اجرا ءتک ہی محدود رہتے ہیں اور اس سے آ گے بات شاذ ہی بڑھتی ہے پس پردہ دونوں فریقین راضی نامہ کر لیا کرتے ہیں‘سینٹ کی جن نشستوں پر انتخاب ہونے جا رہا ہے اس کے لئے سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کی جو فہرست شائع کی ہے اس پر طائرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیکنو کریٹس کا انتخاب درست لگتا ہے‘ کیا وقت نہیں آگیا کہ تحقیقاتی جرنلزم سے تعلق رکھنے والے صحافی اس بات پر خصوصی ریسرچ کریں کہ ماضی میں سینٹ اراکین کی انفرادی طور پر کیا کیا کارکردگی رہی ہے ‘انہیں دال دلیا کے لئے اچھے خاصے پیسے مل جاتے ہیں فکر معاش سے وہ آزاد ہیں اور زندگی کی دوسری بنیادی سہولیات کہ جن کے حصول کے بارے اس ملک کا عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا جیسا کہ مفت میڈیکل سہولیات آنے جانے کا خرچہ وغیرہ ‘اس ضمن میں زیادہ دور تک جانے کی ضرورت نہیں وہ گزشتہ بیس سال میں سینٹ کے ہر رکن کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کر سکتے ہیں اور پھر اس پر ایک مفصل رپورٹ ایک ٹیلی ویژن ڈاکومنٹری کی شکل میں عوام کو پیش کر سکتے ہیں ‘سینٹ کو صرف ڈیبیٹنگ کلب ہی نہیں ہونا چاہئے۔