مخلص لوگوں کا فقدان 


 ہمارے ایک پرانے جاننے والے ہیں حالیہ سینٹ کا الیکشن لڑ رہے ہیں الیکشن فیس کم پڑ گئی تھی چنانچہ پارٹی ارکان نے چندہ کر کے پیسے پورے کئے ایک طرف تو اس قسم کے درویش صفت حضرات سینٹ کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں پر دوسری جانب بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کے پاس اتنا دھن ہے کہ وہ اسے گن نہیں سکتے اس جملہ معترضہ کے بعد اب ذرا ذکر ہو جائے کچھ سرکاری محکموں کی کارکردگی کے مختلف پہلوؤں کا۔ اس بات کا تذکرہ تو بہت کیا جاتا ہے کہ اگر تمام سرکاری محکموں کے کرتا دھرتااپنے اپنے فرائض منصبی دیانتداری سے بجالائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ملک گل گلزار نہ بن جائے سوال مگر یہ ہے کہ یہ سرکاری محکمے صرف اسی صورت میں ہی ڈلیور کر سکتے ہیں اگر ان کے چلانے والوں کو نہایت باریک بینی اور احتیاط کے ساتھ چنا جائے تمام کھوٹ ہی ان کے چناؤ میں ہے آئیے سب سے پہلے ذرا اس بات کی گہرائی میں جائیں کہ ایک عرصہ سے سرکاری محکموں میں بھرتی کیسے اور کس انداز سے کی جارہی ہے اور اس میں بہتری کی کہاں کہاں گنجائش ہے؟ پولیس اور سول انتظامیہ کے نچلے کیڈرز میں بھرتی بغیر کسی سفارش کے ہو ہی نہیں سکتی اس میں پیسہ بھی چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج نارمل قسم کے بحران سے بھی وہ نبٹنے میں مشکل کا شکار ہوتی ہے یا وہ زمانہ تھا کہ جب بڑے سے بڑے لا اینڈ آرڈر مسائل کو ایک ڈیوٹی مجسٹریٹ اور چند پولیس والے باآسانی کنٹرول کر لیا کرتے تھے ضلعی سطح پر فوجداری اور دیوانی عدالتوں میں مقدمات کی بھر مار ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ جس رفتار سے ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے حساب سے عدالتوں کی تعداد نہیں بڑھی۔ کسی بھی ضلع میں ڈپٹی کمشنر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج وہ تین اہم مناصب ہیں کہ جن پر تعیناتی ان افراد کی ہونی چاہئے کہ جو ہر لحاظ سے اپنے اپنے شعبہ میں نہایت ہی اچھی شہرت کے مالک ہوں ان کی مالی دیانتداری بھی مسلم ہو اور ان کی غیر جانبداری پر بھی کوئی انگلی نہ اٹھائی جا سکے‘ اسی طرح وہ ہر قسم تعصبات سے بھی بالکل پاک صاف ہوں۔ ایک سابق حکمران نے پارلیمنٹ کا ممبر بننے کیلئے صادق اور امین ہونے کی جو شرط لگائی تھی وہ کوئی بری شرط نہ تھی پر افسوس اس بات کا ہے کہ یار لوگوں نے اس کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا کہ صادق و امین کی شرط کو سامنے رکھ کر الیکشن کے وقت ریٹرننگ افسروں نے اگر امیدواروں کی الیکشن لڑنے کی اہلیت کی جانچ پڑتال کرنا شروع کر دی تو شاید ان کو ملک میں کوئی بھی اس کسوٹی پر پورا اترتا ہوا امید وار نہ ملے‘فارسی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ دل نہ دارد عذر بسیار یعنی اگر کسی کا دل کسی کام کو نہ کرنا چاہے تو اس کیلئے وہ پھر لاکھ بہانے بنا لیتا ہے۔قصہ کوتاہ جب تک سرکاری محکموں میں اعلی اقدار کے افراد موجود نہ ہوں گے اس ملک کے عوام کے دن نہیں پھر سکتے۔اگر سرکاری اداروں پر بھرپور توجہ دی جائے اور یہاں پر بھرتی ہونے والے افراد کی کارکردگی کو مدنظر رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ نہ صرف سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر ہو جائے گی بلکہ اس سے عوام کے بھی بہت سے دیرینہ مسائل حل ہو جائینگے کیونکہ سرکاری مشینری کا مطلب یہی ہے کہ وہ ملکی معاملات کو اس طرح چلائے کہ جس سے سرکاری امور میں روانی ہو تو عوام کو خدمات کی فراہمی میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو اور اس کے لئے ضروری یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی بھرتی اور اداروں کے سربراہوں کے چناؤ میں صرف اور صرف اہلیت کو مدنظر رکھا جائے رشوت‘ سفارش اور اقربا پروری سے گریز کیا جائے اور ایسے لوگوں کو ہی آنے کا موقع ملے جو خلوص نیت سے صرف  ملک و قوم کی خدمت کے لئے میدان میں ہوں۔