قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں۔۔۔

 وزیراعظم نے انتظامیہ کی کارکردگی میں بہتری لانے کےلئے جو بیڑا اٹھا رکھا ہے اس سلسلے میں اگلے روز ان کی ہدایت پر 263 افسران کو وارننگ جاری کر دی گئی پنجاب بیوروکریسی کے سات ارکان کو شوکاز ایک سو گیارہ سے وضاحت طلب اور 833 کو محتاط رہنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے ایک اطلاع کے مطابق 1586 افسران کی جانچ پڑتال مکمل ہو گئی ہے جس میں403 کی کارکردگی کو سراہا گیا کارکردگی بہتر بنانے کےلئے اطلاعات زراعت ایکسائز اور آبپاشی کے سیکرٹریز پنجاب کے 20 ڈپٹی کمشنرز کو مراسلے اور 43 اسسٹنٹ کمشنرز کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔تطہیر کا یہ عمل ملک کے ہر ضلع میں جاری رہنا چاہئے اور یہ مشق یک وقتی کاروائی نہیں ہونی چاہیے ہمارے ہاں یہ چلن عام رہا ہے کہ اگر کسی سول سرونٹ کےخلاف کوئی عوامی شکایت درست ثابت ہوتی ہے تو اسے کچھ عرصے کےلئے اپنے موجودہ منصب سے تبدیل کر کے سیکرٹریٹ میں او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے جہاں وہ بغیر کوئی کام کئے ہر ماہ تنخواہ وصول کرتا ہے کچھ عرصے بعد اسی افسر کو کسی دوسرے ضلع میں کم و بیش اسی نوعیت کی اسامی پر تعینات کردیا جاتا ہے کہ جس پر وہ او ایس ڈی بننے سے پہلے تعینات تھا اس قسم کا مذاق اب بالکل نہیں ہونا چاہئے یہی وہ روش تھی کہ جس کی وجہ سے بیوروکریسی کی کارکردگی میں رتی بھر بھی کوئی بہتری نظر نہیں آئی بیوروکریسی ایک مرتبہ پھر متحرک اور فعال ہو سکتی ہے اگر حکومت صدق دل سے ان گزارشات پر عمل درآمد کرے کہ جن کا ہم پہلے بھی تذکرہ کر چکے ہیں اور آج ایک مرتبہ پھر ان کو دہراے دئیے دیتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سول سرونٹس اور پولیس سے بطریق احسن کام نکلوانا صوبے کے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کا کام ہوتا ہے وزیراعظم کو اس جھمیلے میں پڑھنا ہی نہیں چاہئے ۔چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو غیر مبہم الفاظ سمجھا دینا چاہیے کہ وہ صوبے میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں اور اس کے نفاذ کی راہ میں اگر کوئی بھی روڑے اٹکانے کی کوشش کرے تو وہ براہ راست وزیراعظم کو اس کا نام بتائیں اس کے علاوہ وہ کسی سرکاری منصب دار یا رکن پارلیمنٹ کی کوئی بھی ناجائز اور غیر قانونی بات بالکل نہ مانیں نیز چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو مکمل اختیار دے دیا جائے کہ وہ اپنے صوبے میں اپنے اپنے محکموں میں کلیدی آسامیوں پر اپنی پسند کے افسران تعینات کریں آپ یقین کریں کہ ان اقدامات سے سول انتظامیہ اور پولیس کے افسران کا مورال بلند ہوگا اور آج ان میں عدم اعتماد کی جو فضا پائی جاتی ہے اور جس کی وجہ سے گڈ گورننس کا فقدان پیدا ہوچکا ہے وہ فوری طور پر ختم ہو جائے گا ہر سول سرونٹ کو یہ اعتماد و یقین ہونا چاہئے کہ جس کرسی پر اسے بٹھایا گیا ہے وہ اس پر کم از کم دو یا تین سال فائز رہے گا اور یہ احساس اس کی کارکردگی پر بڑا مثبت اثر چھوڑے گا۔حزب اقتدار سے وابستہ لوگوں کو بھی اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا اور یہ بات اپنے دماغ سے نکالنی ہو گی کہ چونکہ وہ الیکشن جیت چکے ہیں لہذا اب وہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں الیکشن جیت کر ایوان اقتدار میں آنے کا یہ مقصد تھوڑی ہے کہ وہ اب یہ سوچنے لگیں کہ وہ ملک کے قوانین سے بھی بالاتر ہو گئے ہیں ہمارے اکثر حکمران یہ بات نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ بیوروکریسی ہر حکومت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اس کے بل بوتے پر حکومت وقت اپنے منشور پر عملدرآمد کراتی ہے حکومت وقت کو اس بات سے ذہنی طور پر سمجھوتہ کرنا چاہئے کہ ملک چلانے کےلئے مختلف قسم کے قوانین موجود ہیں اور سول بیورو کریسی ہو یا پولیس ان دونوں کو ان قوانین کے دائرے کے اندر اندر رہ کر کے اپنا نظام چلانا ہوتا ہے اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی وقت اگر کسی حکومت اور اس کی بیوروکریسی اور پولیس کے درمیان تعلقات بگڑے ہیں تو وہ اسی بات پر بگڑے ہیں کہ جب ان دو اداروں کے کرتا دھرتاو¿ں نے حکومتی اراکین کے کسی غیر قانونی حکم کو ماننے سے انکار کیا ہے۔