چند اہم امور۔۔۔

آج کے اس کالم کے مندرجات دو نہایت ہی اہم امور کے بارے میں ہیں کہ جن میں سے ایک کا تعلق وطن عزیز سے ہے تو دوسرے کا بین الاقوامی امور کے ساتھ جس عمدہ طریقے سے وزیر اعظم صاحب نے کورونا وائرس کی وبا کی مینجمنٹ کی کاش کہ اسی عمدگی کا مظاہرہ سینٹ کےلئے پارٹی کے ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی کیا گیا ہوتا ‘ پارلیمانی جمہوریت کا یہ ایک المیہ ہے کہ اگر اس میں برسراقتدار سیاسی پارٹی کی اسمبلیوں میں واضح عدوی قوت نہ ہو تو اسے اتحادی یا آزاد اراکین اسمبلی کے رحم و کرم پر اقتدار میں اپنے دن گزارنے پڑتے ہیں تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس قسم کے حالات میں برسراقتدار سیاسی پارٹی اکثروبیشتر اپنی اتحادی سیاسی پارٹیوں کی بلیک میلنگ کا شکار ہوتی رہتی ہے دنیا کے مختلف ممالک میں جو نظام ہاے زندگی رائج ہیں ان پر اگر آپ ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو تو آپ کو یہ جاننے میں زیادہ دشواری نہیں ہوگی کہ وہاں مختلف النوع قسم کے نظام کام کر رہے ہیں کہیں ملٹری ڈکٹیٹر شپ ہے تو کہیں ایک پارٹی پر مشتمل نظام حکومت معدودے چند ممالک ہی ہی ایسے ہوں گے جہاں اس قسم کا پارلیمانی نظام نافذہوگا کہ جس کی جھلک ہم انگلستان میں یا یورپ کے ایک آدھ ملک میں دیکھتے ہیں امریکہ میںتو ان سب سے مختلف نوعیت کا صدارتی نظام رائج ہے اب ان میں کون سا نظام بہتر ہے اس کے بارے میں ایک سے زیادہ آ را ءپائی جاتی ہیں کئی لوگ اس سسٹم کو پسند کرتے ہیں کہ جس میں عام آدمی کی بنیادی ضروریات زندگی اور سہولیات کا زیادہ خیال رکھا گیا ہو پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ چین جیسا یک جماعتی نظام ہے یا روس میں رائج نظام‘ وطن عزیز میں جو نظام چل رہا ہے اس کے بارے میں اکثر عوام دوست حلقوں کا خیال ہے کہ اس قسم کا نظام تو سرمایہ داروں کا چونچلا ہوتا ہے سرمایہ داروں کو اپنا وقت گزارنے کےلئے کسی ڈیبیٹنگ کلب کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں پارلیمنٹ کی شکل میں فراہم کردی جاتی ہے جب بھی ان کا دل چاہے وہ تفریح طبع کے لیے یا گاف کلب میں چلے جاتے ہیں کہ جہاں عام آدمی داخلے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور یا پھر پارلیمنٹ میں جا کر براجمان ہو جاتے ہیں جس کی ممبرشپ بھی گاف کلب کی رکنیت کی طرح اس کی مالی دسترس سے دن بہ دن باہرہوتی جا رہی ہے۔امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے امتحان کے دن شروع ہو چکے ہیں کوئی دن جاتا ہے کہ انہیں برصغیر کے بارے میں اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال کو اجاگر کرنا ہوگا وہ چین کو نیچا دکھانے اور اسے چاروں اطراف سے گھیرے میں لینے کی جو پلاننگ کر رہے ہیں اس میں ان کی کامیابی کے امکانات کافی مخدوش نظر آتے ہیں وہ اس مقصد کیلئے جاپان آسٹریلیا اور بھارت پر ہاتھ پھیر کر انہیں تھپکی دے رہے ہیں واقفان حال کا کہنا ہے کہ جاپان بھلا کیوں مفت میں ایک مرتبہ پھر چین کی دشمنی لے اور اپنی دن بہ دن ترقی کرتی ہوئی معیشت کا ستیاناس کر دے ؟ آسٹریلیا کی قیادت بھی آنکھیں بند کر کے امریکہ کی تقلید کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچے گی جہاں تک امریکہ کی اخلاقی پوزیشن کا تعلق ہے وہ یوں تو دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو وہ شور و غوغا شروع کر دیتا ہے اب وہ بھلا کس منہ سے میانمار یعنی برما میں ہونے والی ہیومن رائٹس کی خلاف ورزیوں پر وہاں کے فوجی جرنیلوں کو برا بھلا کہہ سکے گا گا جب کہ اس نے ان ہیومن رائٹس کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ جو بھارت ایک عرصہ دراز سے کشمیری مسلمانوں پر کر رہا ہے اور جس کی شدت میں ماضی قریب میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے اگر آپ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس کی خارجہ پالیسی ہمیشہ تضادات کا شکار رہی ہے اگر کسی ملک میں فوجی حکمران اس کے مزاج کے مطابق کام کرتے ہیں تو اسے وہ دل و جان سے سپورٹ کرتا ہے اور وہ پھر جمہوریت کی رٹ نہیں لگاتا پر جس ملک میں ملٹری ڈکٹیٹر شپ اس کے کسی کام کی نہیں ہوتی تو وہاں اسے جمہوریت کی یاد ستانے لگتی ہے۔