تم چلے آو¿ پہاڑوں کی قسم۔۔۔

خدا نے اسے نہایت ہی سریلی آواز سے نوازا تھا اس کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا گاتا تو وہ پشتو زبان میں تھا پر سرائکی زبان پر بھی اسے دسترس حاصل تھی لہذا سرائکی بیلٹ میں بھی اس کی گائکی کے لاکھوں مداح تھے جنوبی وزیرستان کے ایک فوک گیت کو کمال مسعود نے اردو زبان میں ایساڈھالا کہ وہ راتوں رات گائکی کے لاکھوں شیدائیوں کے لبوں پر گنگنانے لگا کمال مسعود کی وفات کے بعد اس فوک گیت کو اس کے فرزند نے بھی گایا اور آج کل علی ظفر نے بھی اسے اپنے سروں میں ڈھالا ہے چونکہ اس گیت کا تعلق پہاڑوں سے ہے لہٰذا علی ظفر نے اسے معروف پاکستانی شیرپا یعنی کو ہ پیمائی میں مہارت رکھنے والے محمد علی سدپارہ کی یاد میں بطور ٹریبوٹ گایا ہے کہ جو حال ہی میں کوہ پیمائی کی ایک مہم میں پہاڑوں میں لاپتہ ہو گئے ہیں
اس گیت کے بول دل موہ لیتے ہیں مثلاً
 تم چلے آو¿ پہاڑوں کی قسم
ہم تماری راہ دیکھیں گے صنم
اس نغمے کو کمال مسعود کی زندگی میں اتنی شہرت نہ ملی کہ جتنی اسے ان کی وفات کے بعد ملی کمال مسعود سے ہماری آخری ملاقات اسلام آباد میں 2008 میںہوئی تھی جب وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنا تمام اثاثہ بیچ کر منتقل ہو گئے تھے ‘کمال مسعود کی آواز میں ایک سوز تھا اس کے اندر ایک دکھیارا بولتا تھا‘کیا ہی اچھا ہو اگر پاکستان ٹیلیویژن یا نجی سیکٹر میں کام کرنے والا کوہی ٹیلی ویژن چینل کمال مسعود کی آواز میں ریکارڈ شدہ تمام مواد اکھٹا کر کے اسے محفوظ کرے اور پھر اس دلکش آواز میں موجود پشتو سرائیکی اور اردو گائکی کے خزانے کو کمال مسعود کی برسی کے دن ہر سال ایک خصوصی دستاویزی فلم کے ذریعے ٹیلی کاسٹ کیا جائے اس طریقے سے ہم اس عظیم گلوکار کا نہ صرف قرض اتار سکتے ہیں بلکہ گائکی کی دنیا میں نووارد گلوکاروں کےلئے اسے بطور ایک رول ماڈل بھی پیش کر سکتے ہیں کمال مسعود جیسی آوازیں روز روز پیدا نہیں ہوا کرتیں
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اگر کمال مسعود جیسا گلوکار لاہور یا بمبئی میں میں پیدا ہوا ہوتا تو وہاں کے موسیقار اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے اور وہ راتوں رات اپنے فن کی بلندیوں کو چھو لیتا لیکن چونکہ وہ اس دور افتادہ علاقے میں پیدا ہوا کہ جہاں اس کے فن کی پروجیکشن اتنی نہ تھی کہ جس کی وہ مستحق تھی لہٰذا اس کے فن کی شناخت صحیح معنوں میں نہ ہو سکی اور اگرہوئی بھی تو کافی عرصے بعد ہوئی۔زیادہ دور زمانے کی بات نہیں جب ریڈیو پاکستان پشاور باقاعدگی سے نئے گلوکاروں کی دریافت اور انتخاب کے واسطے موسیقی کی محافل کا انعقاد کیا کرتا جن میں جوانسال گلوکاروں کو مواقع فراہم کئے جاتے کہ وہ گائکی کی مختلف اصناف میں اپنے فن کا مظاہرہ کریں اور اس مشق کے ذریعے یقینا ہر سال کئی نئی آوازیں دریافت ہوا کرتیں یہ سلسلہ بھی دیگر اسی قسم کے کئی اچھے سلسلوں کی طرح اب منقطع کئے جا چکے ہیں اور اب وہ قصہ پارینہ بن چکے اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کسی بھی میدان میں معیاری پروگرام صرف اسی صورت ہی بن سکتے ہیں کہ جب مسابقتی ماحول موجودہو پر حیرت کی بات یہ ہے کہ جب میدان میں پی ٹی وی اکیلا تھا اور اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا چینل نہ تھا تب تو پی ٹی وی نے کئی معیاری پروگرام پروڈیوس کیے ‘ اس وقت جب میڈیا کی دنیا میں درجنوں کے قریب ٹیلی ویژن چینلز کاظہورہوا تو پی ٹی وی کے پروگراموں کا وہ معیار نہ رہا کہ جو کبھی تھا اسی طرح ریڈیو پاکستان کے پرانے سامعین آج اس قسم کے مختلف شعبوں اور زبانوں میں پروگرام سننے کو ترس گئے ہیں کہ جو 1960 کی دہائی تک نشر ہوا کرتے تھے کیا ریڈیو کو بخاری برادران‘ ضیا محی الدین‘ سلیم گیلانی ‘ اسلم اظہر وغیرہ جیسے نابغے دوبارہ ملنے کی امید ہے؟کیا اس ملک میں ایسے براڈ کاسٹر ز پیدا ہوں گے کہ جن کی سوچ مندرجہ بالا براڈکاسٹرز جیسی ہو۔