سوچ کا مقام۔۔۔

عام طور برسراقتدار حکومتیں ضمنی انتخابات بہ آ سانی جیت جایا کرتی ہیں لہٰذا اگر کسی سیاسی پارٹی کے دور اقتدار میں کسی ضمنی لیکشن میں اس کا امیدوار ہار جائے تو وہ اس کے لئے تشویش کی بات ہونی چاہئے‘ نوشہرہ میں لگتا ہے کہ پرویز خٹک کی سیاسی گرفت کچھ حد تک ڈھیلی پڑ ی ہے اور گھر کو گھر کے چراغ سے ہی کہیں آ گ لگی ہے‘ادھر صوبائی حکومت نے ضلع نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں پارٹی پالیسی کے خلاف کردار ادا کرنے اور مخالف امیدوار کی حمایت کرنے پر سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے بھائی اور صوبائی وزیر آبپاشی لیاقت خٹک کو وزارت سے فارغ کردیاہے‘ ن لیگ والے اپنے امیدوار کی فتح پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اس بات کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس کامیابی سے پی ڈی ایم کے کاز اور بیانیہ کو طاقت کا ایک انجکشن لگ گیا ہے۔عثمان ڈار کا یہ بیان البتہ کافی وزنی ہے کہ یہ الیکشن شفاف تھے اگر اس میں مداخلت کی جاتی تو پھر ان کا امیدوار کیوں ہارتا ؟ جوں جوں سینٹ کے الیکشن کی تاریخ نزدیک آ تی جا رہی ہے اس کے ووٹ کے بھاو¿ تاو¿ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ غالباً اس ملک کے ایوان بالا کا پہلا ایسا الیکشن ہو گا کہ جس پر اس ملک کے عام آدمی نے گہری نظر رکھی ہوئی ہے اس لئے ان کی نظروں میں ان افراد کی عزت نہیں ہوگی کہ جو اپنا ووٹ فروخت کریں گے اور یا پھر اسے خریدیں گے دراصل جو لوگ اس گھناﺅنے کام میں ملوث ہیں وہ عجیب مٹی سے بنے ہوئے ہیں وہ بس صرف اور صرف اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور انہیں ان بھونڈے حربوں کی کوئی پروا ہ نہیں کہ جن پر چل کر وہ اپنے منزل مقصود تک پہنچنے کے خواہش مند ہیں ماضی کے سیاستدانوں میں بھلے اور لاکھ قباعتیں موجود ہوں گی پر کم از کم ووٹ خریدنے یا بیچنے کی لعنت میں وہ اس قدر سر سے لے کر پاو¿ں تک ڈوبے ہوئے نہ تھے کہ جس طرح آج وہ ڈوب چکے ہیں یا وہ دور بھی تھا جب اس ملک کے معروف سیاسی رہنما سردار عبدالرب نشتر کو الیکشن لڑنے کے اخراجات برداشت کرنے کیلئے پشاور میں اپنا گھر فروخت کرنا پڑا اور کئی سیاسی رہنماو¿ں کو پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہونے والے الیکشنز کے اخراجات برداشت کرنے کیلئے اپنے دوست ‘یاروں اور رشتہ داروں سے قرضے لینے پڑتے تھے ‘وہ سیاست جو کبھی ذریعہ عبادت ہوا کرتی تھی اب ذریعہ تجارت بن چکی کوئی بھلا اس بات کو مانے یا نہ مانے پر یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ مقننہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے کام کا بھی سختی سے محاسبہ کرنا ضروری ہے یہ کہہ کر وہ اب اپنی جان نہیں چھڑا سکتے کہ قوم تو ان کا محاسبہ الیکشن میں کر دیتی ہے ان کو بھلا کسی دوسرے احتساب کی بھٹی سے کیوں گزارا جائے قوم ان پر ٹیکس دہندگان سے وصول کی گئی رقم میں سے ایک بڑا حصہ ان کے بھاری بھر کم مشاہرے اور دیگر متفرق اخراجات پر ہر ماہ خرچ کرتی ہے اسے اس بات کی تسلی کرنے کا پورا پورا حق ہے کہ آخر یہ لوگ سال بھر پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بجز ڈیسک کو بجانے اور ایک دوسرے پر دشنام طرازی کرنے کے علاوہ آخر اور کونسا کام کرتے ہیں کہ جو عوام دوست کہلایا جا سکے اس ملک کے عوام کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے کئی امور ایسے ہیں کہ جن میں پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم لانے کی ضرورت ہے تو کہیں نئی قانون سازی کی فوری ضرورت ہے پر مجال ہے ہمارے ان عوامی نمائندوں کا اس طرف رتی بھر خیال تک بھی جاتا ہوکوئی ایسا پیمانہ ضرور وضع ہونا چاہئے جس سے ہر رکن اسمبلی کی سال بھر کی کارکردگی کو ناپا جا سکے کہ اس نے کن کن عوامی امور کی طرف ایوان کی توجہ مبذول کرا کر اس میں ضروری قانون سازی کی کوشش کی ہے کہ جہاں اس کی سخت ضرورت تھی ‘اصولی طور پر سینٹ جیسے اہم ادارے میں سلیکشن کے لئے ایسا قانون وضع کیا جائے کہ اس کا رکن صرف وہی شخص بن سکے کہ جو عوامی ذہن رکھنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اعلیٰ اوصاف کا مالک ہو وہ مختلف معاشی اور سائنسی مضامین میں بھی ید طولیٰ رکھتا ہو ۔