پاکستان اور جمہوریت


 انسان شروع دن سے ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آیا ہے۔ انفرادیت سے اجتماعیت، بادشاہت سے ملوکیت اور اب جمہوریت کے مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔ گو کہ انسان کو موجودہ مرحلہ جمہوریت بہت خوشنما اور دل پسند لگ رہا ہے کیونکہ انسانی ارتقاء کے پچھلے مراحل سے یہ بہتر ہے اور اس میں انسان کو آزادی اظہار رائے اور فیصلے کا پورا حق حاصل ہے۔ مگر بظاہر یہ جمہوریت کی خوشنمائی اور دل پسندی بھی ایک سراب کی طرح ہے۔ بقول علامہ اقبال کے مغرب کا جمہوری چہرہ باہر سے روشن اور اندر سے تاریک تر ہے، جسکی واضح مثال آپ برطانیہ اور امریکہ کی لے لیجئے جو جمہوریت کے پاسبان اور دعوے دار ہیں لیکن 2003ء میں باوجود پوری اقوام عالم کی مخالفت کے عراق پر چڑھ دوڑے۔ علامہ محمد اقبال بہت وسیع النظر انسان تھے۔ اس جمہوری نظام کی اپنی نظم”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں انہوں نے صحیح نقشہ کھینچا ہے، جس میں شیطان کا مشیر اپنے آقا کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ ہم نے خود شاہی یعنی بادشاہت کو جمہوری نظام کا لبادہ پہنا دیا ہے کیونکہ انسان اب تھوڑا خود شناس اور خوددار ہو گیا ہے۔ آج بالکل یہی کچھ دنیا میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
علامہ محمد اقبال صاحب نے کیا خوب کہا ہے۔
 اس راز کو ایک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ویسے تو اسوقت دنیا میں جمہوریت کے بہت سے ماڈل رائج ہیں جسکے رول ماڈلز میں برطانوی، امریکی، انڈین اور فرانسیسی نظام ہائے جمہوریت سرفہرست ہیں۔ اسوقت پوری دنیا میں جمہوری حکومتیں صرف دو نظاموں کے تحت چل رہی ہیں۔ ایک نظام پارلیمانی ہے اور دوسرا صدارتی نظام۔برطانیہ، انڈیا اور پاکستان میں پارلیمانی نظام رائج ہے جبکہ امریکہ اور فرانس میں صدارتی نظام۔پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے صدارتی نظام حکومت بنانے کی تاکید کی تھی اور اسکے حق میں یہ دلیل پیش کی کہ چونکہ پاکستان میں شرح خواندگی اتنی سطح پر نہیں پہنچی جتنی برطانیہ میں ہے اسلئے یہاں پر صدارتی نظام حکومت کامیاب رہے گا۔ان دونوں نظاموں میں کچھ خوبیاں بھی ہیں اور کئی خامیاں بھی۔ پارلیمانی نظام حکومت میں الیکشن کے ذریعے عوام کو ہر علاقے سے اپنا نمائندہ چننا پڑتا ہے اور پھر حکومت سازی ہوتی ہے جبکہ صدارتی نظام حکومت میں ملکی سطح پر چند صدارتی امیدواروں میں سے عوام کو الیکشن کے ذریعے صرف ایک شخص کو منتخب کرنا ہوتا ہے اور چنا ہوا صدر پھر اپنی حکومت سازی کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوری حکومتیں تو آئین میں متعین کردہ قوانین اور پارلیمانی نظام کے تحت بنتی چلی آرہی ہیں لیکن اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں جمہوریت پر پوری طرح عمل پیرا نہیں ہیں۔ سوائے  چند ایک کے کسی پارٹی کے سربراہ کے انتخاب کیلئے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں ہوتے۔اس وقت پی ڈی ایم نے حکومت کے ساتھ محاذ آرائی شروع کر دی ہے اور اس بات پر زور لگایا ہوا ہے کہ ہم ہر حال میں جمہوریت بحال کریں گے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کو بار بار میثاق جمہوریت، جو 2008ء میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان جمہوریت کی بحالی اور ملک سے آمریت ختم کرنے کیلئے ہوا تھا، کی تجدید و توسیع اور اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتی نظر آرہی ہیں۔تاہم یہی جماعتیں جب حکومت میں ہوتی ہیں تو عوام اور اپوزیشن کو جمہوریت کا درس دیتی ہیں لیکن جب اپوزیشن میں بیٹھتی ہیں تو غیر جمہوری طرح سوچنا شروع کر دیتی ہیں۔ وہ پارلیمان جہاں پر عوام اور اپنے حلقے کے ووٹروں اور سپوٹروں سے عوام کے مسئلے حل کرنے کے وعدے لیکر پہنچے ہوتے ہیں انکو مچھلی بازار بنا دیتے ہیں۔ ہماری عوام بھی بہت بھولی بھالی ہے یا انہیں کچھ نسیان(بھولنے والی) کی بیماری لاحق ہے کہ پچھلے 73 سالوں سے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہوئی ہے اور دن میں سپنے اور سبز باغ دیکھتی آرہی ہے۔ یہ تو ہمارے پارلیمانی نظام کی خرابیاں ہیں اسلئے تو قائد اعظم نے صدارتی نظام حکومت کی حمایت کی تھی۔ لیکن ہمارے ملک میں صدارتی نظام حکومت کے نفاذ کی ایک بڑی خرابی یہ ہو گی کہ چونکہ شروع سے ہی سارے صوبوں میں پوری ہم آہنگی پیدا نہیں ہوئی ہے اور وسائل کی تقسیم پر شروع ہی سے قومی اسمبلی میں تنازعے چلے آرہے ہیں۔ اسلئے اگر اس ملک میں صوبوں میں ہم آہنگی اور وسائل کی یکساں تقسیم و فراہمی کے بغیر صدارتی نظام رائج ہو گیا تو پارلیمانی نظام حکومت سے بھی بدتر ہو گا کیونکہ اس صورت میں پورا ملک بڑے و اکثریتی صوبے کا ہمیشہ کیلئے ماتحت ہو جائیگا۔ اس لئے موجودہ حالات میں ملک کیلئے پارلیمانی نظام حکومت مناسب ہے لیکن اس نظام کو مزید بہتر و فعال کرنے کی ضرورت ہے سیاست دانوں کو بھی پختہ اور سنجیدہ سوچ اور عمل پر کاربند ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنا مواخذہ اور احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی اپوزیشن جماعتوں کے کرپٹ ارکان کے ساتھ ساتھ سخت احتسابی عمل پی ٹی آئی کے اندر ہی سے شروع کرنا چاہئے کیونکہ اسکے بغیر احتساب کا عمل نامکمل ہو گا اور کرپشن فری پاکستان مشن بھی کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔