سیانے کہہ گئے ہیں کہ سچ نے ابھی بوٹ بھی نہیں پہنے ہوتے کہ جھوٹ نے آ دھے شہر کا چکر لگا لیا ہوتا ہے ڈسکہ میں قصوروار کون تھا اس کا سراغ لگانا ضروری ہے اس واقعہ پر مٹی ڈالنا اس ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہو گا ایک آزادانہ انکوائری کے بعد اس معاملے کی طے تک پہنچنا ضروری ہے اس سلسلے میں کسی بھی سیاسی مصلحت کا مظاہرہ کرنا اس ملک کی بقا کے واسطے سم قاتل سے کم بات نہ ہو گی دراصل اس سانحہ پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں عام آ دمی سمجھ نہیں پا رہا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ‘ سندھ میں سندھ کارڈ ابھی تک چلایا جا رہاہے اور اس کے چلانے والے دل ہی دل میں خوش ہیں کہ اس کے خاطر خواہ نتائج ان کے حق میں ہنوز آ رہے ہیں پی ڈی ایم نے اپنا سب کچھ یوسف رضا گیلانی صاحب کی سینٹ کی نشست جیتنے کیلئے داو¿ پر لگا دیاہے ان کی دانست میں اگر وہ اس سیٹ کو جیتنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں وہ پھر پارلیمنٹ میں وزیر اعظم صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔یہاں پر ایک اور ہی نہایت اہم بات کا ذکر ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ دیکھنے میں آ یاہے کہ بعض سیاسی جماعتوں نے رضاکاروں کے اپنے ایسے ونگز بنا رکھے ہیں جو مخصوص قسم کا یونیفارم پہنتے ہیں‘ بے شک اپنے جلسوں کے اندر ان کو شرکا کو ڈسپلن کے دائرے کے اندر رکھنے کیلئے اپنے رضاکار چاہئے ہوتے ہیں پر کیا یہ ضروری ہے کہ ان کو ایسا لباس زیب تن کرایا جائے کہ جس سے غلط فہمی پیدا ہو۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماو¿ں کو آپس میں بیٹھ کر کوہی فیصلہ کر نا چاہئے بہتر ھے کہ اس ضمن میں کوئی قانون سازی ہو جائے ایک دوسری روش جس نے ملک کو فائدہ کے بجاے نقصان پہنچا یا ہے وہ ہے تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس یونینز کا قیام‘ تقریبا ًتقریباً ہر سیاسی پارٹی نے ہر تعلیمی ادارے میں اپنا سٹوڈنٹ ونگ قائم کر رکھا ہے اوریہ اتنے مضبوط ہوتے ہیںکہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو چیلنج کرنے لگتے ہیں۔ کالج میں نئے طلبا کے داخلے کے عمل سے لے کر کالجوں کے ہاسٹلوں میں رہنے کے ضرورت مند طلبا کو ہاسٹل میں رہنے کی جگہ دلوانے تک ان یونینز کی خدمات درکارہوتی ہیں ‘ ان کو سپورٹ کرنے والوں کا یہ موقف ہوتا ہے کہ یہ یونینز ان کی ذہنی نشونما کیلئے ضروری ہیں بے شک ان کا یہ موقف کچھ حد تک درست ہے پر ذہنی نشونما تو کئی اور طریقوں سے بھی تو ہو سکتی ہے مثلا مختلف علمی اور سائنسی موضوعات پر بحث و مباحث کے ذریعے کالجوں کے اپنے میگزینز میں نثر یا نظم لکھنے سے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی طلبہ کی ذہنی تربیت کوایسے انداز میں بھی جاری رکھا جاسکتاہے کہ جس میں کوئی سیاسی ایجنڈا مد نظر نہ ہو۔ہونا تو یہ چاہیے کہ تعلیم کے حصول کو طلباءاپنی اولین ترجیح قرار دیں اور پڑھائی کے دوران سیاست کی طرف توجہ دینے کی غلطی ہرگز نہ کریں کیونکہ ان کا جو وقت سیاست کی نذر ہوجاتا ہے اس کی تلافی پھر کسی بھی طرح ممکن نہیں، سیاست کے لئے پڑھائی کے بعد کافی وقت رکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ ہمارے ہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اس کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ تعلیم کے دوران اگر طلباءکی ذہنی تربیت بھی مناسب خطوط پر ہوں تو اس سے تمام معاملات کو بخوبی سلجھایا جاسکتا ہے۔