ڈسکہ اور نوشہرہ کے حالیہ ضمنی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے پیش نظر ضروری ہو گیا ہے کہ ان کی تفصیلی انکوائری ہو اور عوام کو صحیح صورت حال سے آ گاہ کیا جائے ہم جیسے ممالک میں الیکشن ہارنے والی سیاسی جماعتوں کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ بغیر سوچ بچار کے دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگانا شروع کر دیتے ہیں کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کچھ اسی قسم کی روش پائی جاتی تھی ہر اب کچھ وقت سے وہاں یہ رحجان تقریبا تقریبا ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے الیکشن کمیشن میں اب ایسے قواعد و ضوابط بنا دئیے گئے ہیں اور پھر ان پر اس قدر سختی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے کہ اب الیکشن کے معاملات میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو حرف آ خر سمجھا جاتا ہے اور وہ کسی سیاسی دباو¿ میں بالکل نہیں آتا اور اس میں بھارت کے ایک سابق ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل پولیس کا بڑا کردار رہا کہ جنہوں نے بحیثیت چیف الیکشن کمشنر کلیدی کردار ادا کیاہے ۔انتظامیہ سے تو نہ جانے الیکشن میں حصہ لینے والے افراد کو کیوں مفت کا بیر ہے حالانکہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں جو سب سے زیادہ غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات ہوئے وہ 1970 کے الیکشن تھے اور انہیں انتظامیہ نے ہی منعقد کرایا تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی ریاستی ادارے پر تو آ پ کو بہر حال اعتماد کرنا ہی پڑے گا کسی اور مخلوق نے یہاں آکرالیکشن تھوڑی کروانا ہے ۔ اگر ایسا ہوبھی جائے تو پھر بھی پاکستان کے الیکشن میں مداخلت کا الزام لگایا جا سکتا ہے لہٰذا بہتری اسی میں ہی ہے کہ ہم اپنے الیکشن اپنی انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے ہی کروائیں پر ان دونوں اداروں کو الیکشن کے دوران مکمل طور ہر چیف الیکشن کمشنر کے ماتحت کر دیں۔ سب سے پہلے تو الیکشن کمیشن میں اوپر سے لے کر نیچے تک ذمہ دار اسامیوں پر ایسے لوگ تعینات ہونے چاہئے کہ جن کی دیانت ضرب المثل ہو اور وہ ہر قسم کے تعصبات سے پاک و صاف ہوں وقت آگیا ہے کہ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان ان ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے الیکشن کمیشنز کے ڈھانچوں کا بھی بغور مطالعہ کرے اور اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ ان کے ہاں جب الیکشن ہوتا ہے تو وہ کس طرح اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ الیکشن میں کسی بھی قسم کی دھاندلی نہ کی جاسکے اس کو روکنے کےلئے انہوں نے کونسا موثر طریقہ کار اپنایا ہواہے اور ہم وہ طریقہ کار آخر اپنے ملک میں کیوں نہیں نافذ کر سکتے یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم ہر چار یا پانچ سال بعد الیکشن پراربوں روپے خرچ کر رہے ہیں تاکہ جو لوگ اس کے ذریعے منتخب ہو کر ایوان اقتدار میں بیٹھیں تو وہ ملک کو درپیش مسائل کو ٹھوس انداز میں حل کرسکیں یہ بھی بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اب تک کسی بھی چیف الیکشن کمشنر نے صدق دل سے کوشش نہیں کی کہ الیکشن کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے اور اس ضمن میں ہمیشہ سیاسی مصلحتوں کا خیال رکھا گیا اگر الیکشن کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا تو شاید حالات آج اس قدر دگر گوں نہ ہوتے کہ جتنے ہیں۔