جب دوسری جنگ عظیم میں مغربی اتحادی ممالک کو فتح نصیب ہوئی تو ایک موقع پر برطانیہ کے وزیراعظم نے اپنی دو انگلیوں سے وکٹری سائن بنایا اسے کیمرے کی آنکھ نے ریکارڈ کر لیا انہوں نے تو خیر ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا تھا اور اگر انہوں نے اپنی دو انگلیوں سے اس عظیم کارنامے پر وکٹری سائن بنایا تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی انہوں نے عالمی جنگ جیتی تھی پر ان لوگوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ جو چور اچکے ہوتے ہیں جنہوں نے کئی کئی قتل کئے ہوتے ہیں اور وہ جب کسی مقدمے میں ضمانت پر رہا ہو کر جیل کے دروازے سے باہر نکلتے ہیں تو وہ بھی کسی فوٹوگرافر کے سامنے آکر اپنی انگلیوں سے وکٹری سائن بناتے ہیں جیسے کہ انہوں نے کوئی بہت ہی بڑا تیر مارا ہو جس طرح کہ خراب شہرت رکھنے والوں نے دو انگلیوں سے وکٹری سائن بناکر اس کی توقیر کو کم کر دیاہے بالکل اسی طرح لانگ مارچ کی اصطلاح بھی ان لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے کہ جو اسے اپنے مخصوص سیاسی مقصد کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہیں چین کے عظیم رہنما ماو¿زے تنگ اور ان کے ساتھیوں نے تو جو لانگ مارچ کیا تھا اس کی خاک پا تک بھی کوئی نہیں پہنچ سکتا ماو¿ زے تنگ اور ان کے ساتھی لیڈروں نے اپنا لانگ مارچ ائر کنڈیشنڈ یا سینٹرلی ہیٹڈ کنٹینرز میں نہیں کیا تھا اور نہ ہی راستے میں ان کی خاطر تواضع مرغن کھانوں سے کی گئی ماو¿ زے تنگ کی زیر قیادت لانگ مارچ کا دورانیہ تقریباً ایک برس تک رہا اس میں ایک لاکھ کے قریب شرکا ءتھے پر راستے میں چونکہ دریا بھی تھے پہاڑ بھی کھانے پینے کا سرے سے کوئی بندوبست بھی نہ تھا ‘راستے کی صعوبتوں کی وجہ سے ہزاروں شرکاءراستے میں ہی مر کھپ گئے اور صرف 6 ہزار کے قریب لوگ ہی زندہ سلامت اپنی منزل مقصود تک پہنچ پائے ‘یہ لمبی تمہید ہم نے اس لئے باندھی کہ آج کل خبریں چل رہی ہیں کہ عنقریب پی ڈی ایم والے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں پر تادم تحریر ان کی گھڑی اس بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ اس پر جو خرچہ اخراجات اٹھے گا وہ کون برداشت کرے گا پی ڈی ایم میں شامل چھوٹی سیاسی پارٹیوں کا موقف یہ ہے کہ اس ضمن میں تمام اخراجات صرف اور صرف نون لیگ اور پی پی ہی برداشت کرے کہ ان کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں جبکہ ان دونوں پارٹیوں کے اکثر رہنماﺅں کا یہ خیال ہے کہ لانگ مارچ پر جو خرچہ کیا جائے وہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو مساوی طور پر برداشت کرنا چاہئے ہو سکتا ہے کہ جب یہ تحریر منظر عام پر آئے تو اس ضمن میں پی ڈی ایم نے کوئی متفقہ طور پر فیصلہ کرلیا ہو‘اسلام آباد کے اکثر سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ اگر پی ڈی ایم والے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں ان کے مجوزہ لانگ مارچ کے پروگرام کا بھی ناکام ہونے کا قوی امکان ہے جہاں تک عدم اعتماد کی تحریک کا تعلق ہے اس کے بارے میں سر دست کوئی حتمی رائے اس لئے نہیں دی جا سکتی کہ وطن عزیز میں جس قسم کے پارلیمانی نظام کا کلچر جڑ پکڑ چکا ہے اس میں سیاسی وفاداریاں بدلنا ارکان اسمبلی کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے البتہ اگر عدم اعتماد کی تحریک لانے میں اپوزیشن کو شکست ہوتی ہے تو پھر یہ تصور کیا جائے گا کہ اب تک اس نے جو بھی حکمت عملی بنائی اس میں کوئی کوئی نہ کوئی سقم موجود تھا ۔