مشکل سوال  

  ہمارے سیاستدانوں کو پورا یقین ہے کہ اس ملک کے عام آدمی کو دلکش سیاسی نعروں سے بہ آ سانی لبھایا جا سکتا ہے اس لئے آپ کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھیں کسی بھی ٹیلی ویژن چینل کو آن کر کے اس کے پروگراموں کو سنیے تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ سب لوگ مستقبل کے صیغہ میں بات کرتے ہیں وہ سب عوام کو طفل تسلیاں دیتے نظر آتے ہیں وعدے فردا کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم اگر برسراقتدار آ گئے تو یہ کر دیں گے وہ کردیں گے حالانکہ ان میں سے بہت سے کئی مرتبہ اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ اس ملک کے ہر ذی شعور اور حساس ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا سرمایہ دارانہ نظام جمہوریت کے ارتقا میں سب سے بڑی رکاوٹ نہیں؟ کیا عالمی اجارہ داروں نے ایک شخص ایک ووٹ کے نظریے کو جس کی لاٹھی اس کی بھینس میں بدل نہیں دیا؟ سیاستدان یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دیں تاہم سیاست میں ایسے رجحان کی بھی ضرورت ہے کہ اخلاقیات اور ان پر چلنے والے لوگوں کو عزت دیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی جب نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوا تو اس کے نتیجے میں ایشیا اور افریقہ کے کئی ملک آزاد ہوئے پر اس کے بعدہوا کیا؟ نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر آئی ایم ایف عالمی بینک اور عالمی تجارتی تنظیم ان ممالک پر گلوبلائزیشن کے نام سے مسلط کر دی گئی کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ نے دہشت گردی کے ذریعے دنیا میں تباہی پھیلائی‘قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان میں کچھ عناصر جمہوریت کو اپنے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتے رہے جس کے نتیجے میں سماج میں کرپشن کی رفتار تیز ہوئی ایسی بیمار ثقافت سے جنم لینے والی جمہوریت بھی بیمار جمہوریت ہی کہلائی کیا اس سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام نے صنعتی نظام کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر معاشی ناہمواریاں پیدا کیں۔ دانشوروں کے خیال کے مطابق تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ریاست پر جمہوریت کے ذریعے قبضے کے بعد عوام کو جس طرف لے جانا ممکن ہو لے جایا جا سکتا ہے کیونکہ انہیں اپنی منزل کا علم نہیں ہوتا جمہوری نظام میں کرونی کیپٹلزم کی ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے کہ جس کو اقربا پروری کہا جاتا ہے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے مغرب میں مختلف لابسٹ اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ جمہوریت کے ارتقا میں اگر کوئی سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے عالمی اجارہ داروں نے ایک شخص ایک ووٹ کے نظریہ کو جس کی لاٹھی اس کی بھینس میں بدلا۔ حال ہی میں ایک عالمی سروے ہوا ہے جس کے مطابق چین میں گو کہ کمیونسٹ نظام ہے پر وہاں اس نظام سے 85 فیصد لوگ مطمئن ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ میں نام نہاد جمہوری سرمایہ دارانہ نظام ہے پر وہاں صرف 31 فی صد افراد مطمئن نظر آتے ہیں اسی لیے کسی نے نہایت غور طلب سوال کیا ہے کہ اگر چین کا ماڈل ویتنام نام متحدہ عرب امارات اور ملائشیا میں کامیاب ہوجاتا ہے تو گلوبلائزیشن کے ذریعے لوٹ مار کے بعد عالمی تجارتی تنظیم اور آئی ایم ایف کا کیا مستقبل ہوگا چین نے جنگ کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک کے ذریعے ایشیا افریقہ اور مشرقی وسطی میں معاشی ترقی کے منصوبوں پر کام شروع کروایا ہے جس سے پرامن ترقی کا نیا معیار متعارف ہو رہا ہے کیا یہ بڑی عجیب بات نہیں کہ جمہوریت اپنے پیروکاروں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ عوام ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں کہ جس میں معاشی انصاف ہو جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہو زرعی اصلاحات کی جائیں ٹیکس چوروں کا محاسبہ کیا جائے اور ایسا نظام رائج کیا جائے جس کی بنیاد سائنسی خطوط پر استوار ہو کنزیومر ازم کلچر خاتمہ ہو۔