فروری کی 19 اور 21 تاریخ کو پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں تین قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات منعقد ہوئے۔ نتیجہ کسی کی جیت اور کسی کی ہار کی صورت میںہی آنا تھا کیونکہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جیتنے اور ہارنے والی دونوں سیاسی قوتوں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ ہارنے والے کے الزامات تو سمجھ میںآنےوالی بات ہے ہے مگر اب کے جیتنے والے بھی میدان میں نکل آئے۔ انتخابی قوانین میں س±قم اور کمزوری سے سیاسی پارٹیاں غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ سیاسی ناپختگی اس قدر چھائی ہوئی ہے کہ ملک کی آزادی کے 73 سال بعد بھی جمہوری ذہن پیدا نہیں ہو سکا۔ بلکہ ہر آنےوالے الیکشن میں جمہوری عمل کو مزید نقصان پہنچتا چلا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوسطاً ہر دس سال بعد ملک میں مارشل لاءلگتے رہے ہیں۔ جمہوریت کو پٹٹری سے اتارنے میں ہمارے سیاستدان خود شامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ ماضی میں معتبر سیاسی قوتیں غیر سیاسی قوتوں کو دعوتیں دیتی رہی ہیں۔ ہر آنےوالی حکومت اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی آڑ میں گزشتہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراتی رہی ہیں اور اس طرح بیچارے عوام کو ورغلانے کی کوششیں کرتی رہتی ہیںاور یہ وطیرہ تمام سیاسی پارٹیوں کا رہا ہے۔ کسی نے بھی اپنی کمزوری کا اعتراف نہیں کیا۔ خارجہ پالیسی ہو، داخلہ پالیسی ہو، اقتصادی پالیسی ہو یا معاشرتی پالیسی ہو، غرض ہر قسم کی پالیسی کی ناکامی گزشتہ حکومت کے سر تھوپ دی جاتی رہی ہے۔ ہر کوئی حقیقت کو چھپانے اور دبانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، جو ایک بہت ہی افسوس ناک امر ہے۔ وقت تو گزر جاتا ہے۔ بعض اپنی مدت بھی پوری کر جاتے ہیں۔ مگر قوم کی نفسیات، اقتصادیات اور سیاسیات پر اس کے انمٹ نقوش باقی رہ جاتے ہیں۔کسی بھی قوم کا سیاسی ڈھانچہ اس کے سیاسی رہنماو¿ں کی سوچ و فکر اور مسائل کو حل کرنے کیلئے ان کے طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔ مگر یہاں سلسلہ قوم کی امنگوں اور خواہشات کے برعکس ہے۔ ہر برسر اقتدار سیاسی قوت اپنی مدت پوری کرنے کے چکر میں لگی رہتی ہے۔ وہ قوت یہ نہیں سوچتی کہ اس کے عمل کا کیا ردعمل سامنے آئے گا اور یوں وقت گزر جاتا ہے۔ کیا مناسب وقت ہاتھ آیا تھا کہ انتخابی قوانین میں ترامیم کےلئے مل بیٹھ کر فیصلے کئے جاتے۔ ایک قوت دوسری کے پاس جانے کو اپنی توہین سمجھتی رہی اور اسی میں وقت گزر گیا۔سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تو ایتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا جہنم رسید ہوا۔ سقراط دیوتاو¿ں کے وجود سے انکاری تھا اور ایک خدا کے ہونے کا فلسفہ پیش کیا۔ یونان کی بت پرست اشرافیہ جیت گئی اور سقراط کی عقل و دانش ہار گئی۔سکاٹ لینڈ کی جنگ آزادی لڑنے والے دلاور ولیم والس کو انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ اول نے گرفتار کیا تو اس پر غداری کا مقدمہ قائم کیا۔ اسے برہنہ کرکے گھوڑوں کے سموں کے ساتھ باندھ کر لندن کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور پھر ناقابل بیان تشدد کے بعد اسے پھانسی دے کر لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے۔ اس وقت کا بادشاہ جیت گیا اور ولیم والس ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔گیلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو یہ کیتھولک عقائد کی خلاف ورزی تھی۔ چرچ نے گیلیلیو پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اسے غیر معینہ مدت کےلئے قید کی سزا سنا دی۔ یہ سزا 1633ءمیں سنائی گئی۔ گیلیلیو اپنے گھر میں ہی قید رہا اور 1642ءمیں وہیں اسکی موت واقع ہوئی۔ پادری جیت گئے، سائنس ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔ تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ مگر تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ حق اور سچائی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یونان کی بت پرست اشرافیہ سقراط سے زیادہ طاقتور تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ سقراط کا سچ زیادہ طاقتور تھا۔ولیم والس کی موت کے بعد اس کا نام لیوا بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر آج ایبرڈین شہر سے لے کر ایڈنبرا شہر تک ولیم والس کے مجسمے اور یادگاریں موجود ہیں۔ تاریخ میں ولیم والس امر ہو گیا۔ گیلیلیو پر کفر کے فتوے لگانے والا چرچ اپنے تمام فتوے واپس لے چکا ہے۔ رومن کیتھولک نے ساڑھے تین سو سال بعد تسلیم کیا کہ گیلیلیو درست تھا اور اس وقت کے پادری غلط تھے۔آج سے سو سال بعد ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔ تاریخ ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائے گی۔ کیا آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ہم میں سے کون تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہے اور کون تاریخ کے غلط دوراہے پر ہے۔ کون حق کا ساتھی اور کون باطل کے ساتھ کندھا ملائے ہوئے ہے۔ کون سچائی کا علمبردار ہے اور کون جھوٹ کی ترویج کر رہا ہے۔ کون دیانت دار ہے اور کون خیانت کرنے والا۔ کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔ ہم میں سے ہر کوئی خود کو حق اور سچ کا راہی کہتا ہے۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے اور ہم اپنی منزل سے دور بھٹک رہے ہیں۔ ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور ضرور کیجئے گا۔