انسان دوست لوگ۔۔۔

 کئی دانشوروں کے مطابق حقیقت میں کسی بھی قوم کے ہیروز صرف سائنسدان ہوتے ہیں جو بلا رنگ و نسل مذہب و ملک لوگوں کی زندگیاں تبدیل کر دیتے ہیں انسانیت کا ہیرو وہ ہوتا ہے جو انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرے ان دانشوروں کے مطابق روحانی و مذہبی شخصیات کو الگ رکھیں تو ان کی نظر میں ہیرو صرف سائنسدان ہوتے ہیں ‘ سائنسدانوں کے بعد اہل قلم کھلاڑیوں گلوکاروں کو بھی آپ ہیروز کے زمرے میں ڈال سکتے ہیں کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں خوشیاں بکھیرتے ہیں مغربی ممالک نے البتہ ہم جیسے پسماندہ ممالک کے ساتھ یہ چالاکی کی کہ انہوں نے اصل ہیروز یعنی سائنسدانوں کو ہم سے چھپا کر رکھا اور اداکاروں و گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا تاکہ صرف وہی ہمارے بچوں کے رول ماڈل بنیں۔ اب دیکھیں ناں وہ سائنسدان انسانیت کے کتنے بڑے دوست ہیں کہ جنہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کےلئے ویکسین تیار کی اور اسی ویکسین کی بدولت یہ ہوا کہ کافی حد تک دنیا میں یہ وبا کنٹرول ہو رہی ہے ۔ کیا یہ ہمارے میڈیا کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ان سائنسدانوں پر خصوصی دستاویزی فلمیں بنائے کہ جنہوں نے شبانہ روز محنت شاقہ کے بعد کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کےلئے ویکسین تیار کی ان میں سے ہر سائنسدان پر ایک علیحدہ علیحدہ دستاویزی فلم بنانی چاہئے تھی آج کل ہمارا میڈیا بڑا دورانیہ بے مقصد سیاسی گفت و شنید پر ضائع کر رہا ہے جس کا نہ کوئی حاصل ہے اور نہ وصول اور جس سے ایک عام آ دمی کو کوئی فائدہ نہیں ہماری نئی نسل کو ان سائنسدانوں کے کارناموں سے روشناس کرانا ضروری ہے کہ جنہوں نے مختلف سائنسی علوم یعنی فزکس کیمسٹری بائیولوجی وغیرہ میں ریسرچ کے بعد حیرت انگیز دریافتیں کیں کہ جن کی بدولت دنیا سے کئی لاعلاج بیماریوں کا علاج ممکن ہوا خلقت خدا اس ضمن میں ان کی قرضدار ہے اور یہ قرضہ صرف اسی صورت اتارا جا سکتا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے ملکوں میں سائنسی علوم کو فروغ دیں اور ریسرچ کو ترجیح دیں میڈیا کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ بے شک وہ زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی پروگرام چلائیں ہر سائنسی امور کو اس طرح سے نظر انداز نہ کریں کہ جس طرح اس نے کر رکھا ہے دنیا میں کسی زمانے میں ملیریا لاعلاج تھا اور آپ کو یقینا پتا ہوگا کہ سکندر اعظم جیسا عظیم حکمران بھی ملیریا کے بخار کی تاب نہ لاکر عالم شباب میں ہی موت کے منہ میں چلا گیا تھا پر جب سائنسدانوں نے ملیریا کا تریاق نکالا تو دنیا کو اس بخار سے نجات ملی تپ دق کئی برسوں تک لاعلاج مرض تھا اس میں مبتلا افراد کے علاج کے لئے انہیں سینی ٹوریم میں رکھا جاتا پر جب سائنسدانوں نے پینسلین دریافت کی تو دنیا سے تپ دق کا خاتمہ ہوا یہی حال ایک عرصہ دراز تک ٹائیفائڈ بخار کا تھا پر جب سائنسدانوں نے اس کا تریاق نکالا تو وہ بخار لاعلاج نہ رہا دل کے مختلف امراض میں مبتلا مریض ہارٹ اٹیک سے داعی اجل کو لبیک کہہ جایا کرتے تھے پر جب بائی پاس سرجری کے ذریعہ امراض دل کا علاج کیا جانے لگا تو اس سے بھی ہر سال ہزاروں لوگ لقمہ اجل ہونے سے اب بچ رہے ہیں حتی کہ کینسر جیسے موذی مرض کا علاج بھی اب ممکن ہے اور تو اور گردوں اور جگر کی پیوندکاری بھی اب کی جا رہی ہے۔دنیا میں تقریبا دو سو کے قریب ممالک ہیں جن میں مختلف مذاہب کے لوگ رہائش پذیر ہیں ان میں مسلمان بھی ہیں یہودی بھی ہیں اور ایک بڑی تعداد دہریہ نظریات کے افراد کی بھی ہے پر آ پ نے یہ بات ضرور نوٹ کی ہو گی کہ ان میںسائنسی علوم کی طرف توجہ معدودے چند ممالک کی ہی ہے آپ کو کورونا وائرس کی وبا کے بعد اس کا تریاق دریافت کرنے میں صرف چند ہی ملک نظر آ ئے ہوں گے کہ جنہوں نے دن رات اس کا تریاق نکالنے کے لئے ریسرچ کی اور ان میں بھی صرف چند ممالک اس کی ویکسین دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے ۔