سینٹ کے الیکشن کا بڑا چرچا تھا سو وہ بھی انجام کار اختتام پذیرہوا کیا فرق پڑا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں بعض جگہ چہرے ضرور بدلے ہیں پر کئی جگہوں پر چہرے نہیں بدلے بہ فرض محال جیسا کہ الزام لگایا جاتا ہے لوگوں کی طر ف سے اگر کسی فرد نے سینٹ کی سیٹ پیسوں کے عوض حاصل کی ہو اس سے بھلا کیا توقعات کی جاسکتی ہیں کہ وہ سینٹ میں اپنے قیام کے دوران کوئی عوام دوست قانون سازی کرے گا جس طرح کوئی شخص پولیس میں بھرتی ہونے کےلئے یا پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ میں کوئی آسامی حاصل کرنے کےلئے پیسے خرچ کرتا ہے تو جب وہ اپنے منصب کا چارج سنبھالتا ہے تو سب سے پہلے اس رقم کی وصولی کرتا ہے کہ جو اس نے اس منصب کو حاصل کرنے کےلئے خرچ کی ہوتی ہے کسی زمانے میں ہم سنا کرتے تھے کہ محکمہ مال میں پٹواری یا نائب تحصیلدار بننے کے لیے یا پولیس میں بطور سپاہی بھرتی کےلئے پیسے خرچ کرنے پڑتے تھے ۔سندھ کی صوبائی اسمبلی میں اگلے روز جس طرح بعض اراکین اسمبلی آپس میں مشت و گریبان ہوئے اسے دیکھ کر ہر محب وطن کو دکھ بھی ہوتاہے اور افسوس بھی یہ روش صرف سندھ اسمبلی تک ہی محدود نہیں رہی اس قسم کا شور و غوغا چاروں صوبوں کی اسمبلیوں بشمول قومی اسمبلی میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے اراکین اسمبلی ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اسمبلیوں میں ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں کہ جو کسی سبزی منڈی یا فش مارکیٹ میں ہوتا ہے ۔اس قسم کا ماحول اور رویہ دیکھ کر اس ملک کے جوان سال کچے اذھان کے مالک بچے اور بچیاں بھلا کیا تاثر لیتے ہونگے یہ تو اچھا ہے کہ آج کل اسمبلیوں میں اراکین کے بیٹھنے کیلئے جو نشستیں رکھی جاتی ہیں وہ زمین کے ساتھ فکس ہوتی ہیں جس زمانے میں میں یہ نشستیں زمین کے ساتھ جڑی نہیں ہوتی تھیں اور اراکین اسمبلی عام قسم کی کرسیوں پر بیٹھا کرتے تھے اس دور میں اس قسم کے لڑائی جھگڑوں کے دوران اسمبلیوں میں کرسیوں کا آزادانہ استعمال ہوتا تھا اور اراکین اسمبلی ایک دوسرے کو کرسی مار کر ان کے سر پھاڑ دیا کرتے تھے تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک دوسرے کو کرسیاں مارنے سے کبھی کبھی ہلاکتیں بھی ہو جاتی تھیں اور اراکین اسمبلی سخت زخمی بھی ہو جایا کرتے تھے۔پڑھا لکھا اور ان پڑھ برابر نہیں ہو سکتا اصولی طور پر پارلیمان میں بھلے وہ قومی اسمبلی ہو صوبائی اسمبلی ہو یا سینٹ معاشرے کے بہترین افراد تعداد کو منتخب کرنا چاہیے ان کا تعلیمی معیار بڑا بلند ہو ان کی عمومی شہرت اچھی ہو اور وہ کسی بھی اخلاقی مالی جرم میں ملوث نہ رہے ہوں اور انہوں نے حکومت کے ٹیکسوں کی ادائیگی میں کوئی ڈنڈی نہ ماری ہو اور نہ ہی انہوں نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے اپنے نام بینکوں کے قرضے جاری کرا کر پھر انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے معاف کروا دیا ہو اس کے علاوہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ جو شخص پارلیمان کا رکن بننے کا خواہشمند ہوں ہو کسی بھی تعصب کا شکار نہ ہو اور وہ لسانیت اور فرقہ واریت جیسی لعنتوں سے پاک ہو وقت آ گیا ہے کہ سول سوسائٹی من حیث القوم ملک کی سیاسی پارٹیوں پر پریشر ڈالے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور الیکشن رولز میں انقلابی اصلاحات کو متعارف کرائیں تاکہ پارلیمنٹ جیسا مقتدر ادارہ واقعی اعلی و ارفع صفات رکھنے والے افراد پر مشتمل ہو کہ جو نہ ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہو اور نہ اس کے اراکین پیسے لے کر اپنا ووٹ فروخت کریں ۔