کس کس بات کا رونا رویا جائے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ” حیراں ہوں دل کو روو¿ں کہ پیٹوں جگر کو میں“اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ کچھ بھی اچھا نہیں ہورہا ۔ ضرور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے شعبوں میں بہتری بھی آئی ہوگی تاہم بحیثیت مجموعی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ زیادہ تر شعبے روایتی انداز میں چلائے جار ہے ہیں اور بدلتے تقاضوں کے مطابق ان کو ڈھالنے کی کوشش شاذ و نادر کی کی جاتی ہے۔ اور اگر کوئی ایسی کوشش کی بھی گئی تو ان کو اندر کے لوگوںنے ہی ناکام بنایا جو خود کو بدلتے وقت کے ساتھ بدلنے کے قائل نہیں۔ کہنے کو تو ہم کہتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے پر خدا لگتی یہ ہے کہ ان پڑھ کو تو آپ ایک سائڈ پر رکھیں ہمارے پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی عملی زندگی میں اس کا خیال نہیں رکھتے،آپ نجی زندگی کو دیکھئے یا پھر دفاتر اور عوامی مقامات کی حالت دیکھئے ہر جگہ یہ حقیقت واضح طور پر جھلکتی ہے کہ ہم کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور۔ صفائی کادم بھرتے ہیں مگر خود کرنے کی بجائے دوسروں سے زیادہ توقع رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہم اصولوں اور قواعد پر عمل کرنے کو بھی پسند کرتے ہیں مگر ہمیں خود جہاں موقع ملتا ہے اس کوتوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ چاہے وہ ٹریفک کے قواعد ہوں یا پھر دوسرے قاعدے اور قوانین۔ جس کا جس قدر بس چلتا ہے وہ قانون کو پاﺅں تلے روند نے میں اپنی شان سمجھتا ہے ۔ایک طرح سے معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے مقولے کا اطلاق ہوتا نظر آرہا ہے ۔ شایدہی دنیا کے کسی اور ملک پر ہوتا ہو قوانین کا ایک انبار ہے پر انصاف کا حصول بڑا مشکل اور مہنگا ہے ہر کوئی کچہریوں کے خرچے اور وکلا کی بھاری بھر کم فیس کے اخراجات اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔تھانے بھی موجود ہیں پر وہاں مشکل سے شنوائی ہوتی ہے۔جان پہچان اور تعلق کی بنیاد پر ہر جگہ کام بنتا ہے ا سکے بنا کوئی دوسرا چارہ نہیں۔ ہسپتالوں کا حال دیکھئے اس ملک کے باشندوں کو یکساں قسم کی طبی سہولیات ابھی تک تو نہیں ملیںتاہم حکومت جس طرح مختلف شعبوں میں اصلاحات کیلئے پر عزم ہے شاید کسی دن اگر علاج کے سلسلے میںہسپتالوں میں مریضوں سے ایاز و محمود کی طرح یکساں سلوک شروع کر دیا جاتا ہے تو یہ بات کسی معجزے سے کم نہ ہو گی ملک میں فوڈ اتھارٹیز موجود ہیں پر اب بھی ہوٹلوں میں میں جو کھانا عوام کو کھلایا جاتا ہے وہ حفظان صحت کے اصولوں کے معیار پر پورا نہیں اترتا اسی وجہ سے ملک بھر میں پیٹ کی بیماریاں زوروں پرہیں‘ تمباکو نوشی اور دیگر منشیات کا استعمال جان لیوا بیماریوں کو جنم دیتا ہے حکومت کے متعلقہ ادارے ابھی تک عوام کو خصوصا نئی نسل کو اس لعنت سے چھٹکارا نہیں دلا سکے امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں تو ہوائی جہازوں میں سفر کے دوران کوئی سگریٹ نہیں پی سکتا اگر فلائٹ کا دورانیہ کم ہو ان کے دفاتر میں کام کاج کے دوران اور بسوں میں دوران سفر اور پبلک پارکس میں تو ہر وقت تمباکو نوشی پر سخت پابندی لگا دی گئی ہے اور ان پابندیوں کے معاشرے پر نہایت ہی مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کیوں اس قسم کے اقدامات نہیں اٹھاتے یا ان کو اٹھانے میں ہمارا رویہ کیوں نیم دلانا ہے سرکاری دفاتر میں چلے جائیں آپ کا کوئی بھی کام بھلے وہ کتنا ہی جائز کیوں نہ ہو اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتا کہ جب تک آپ نے متعلقہ سرکاری اہلکار کو اس کے دوست یا رشتہ دار یا کسی افسر کے ذریعے سفارش نہ کرائی ہو‘وی وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کی بات یوں تو ہر سیاسی لیڈر اور ہر سیاسی پارٹی نے کی پر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب وہ برسر اقتدار آئے تو وہ خود بھی وی وی آئی پی کلچر کا حصہ بن گئے اور مال مفت دل بے رحم والی پالیسی پر چل پڑے۔