کسی نے کہا کہ سینٹ کے حالیہ الیکشن میں جمہوریت اور عام آدمی ہار گیا اور اشرافیہ جیت گئی کسی نے کہا جمہوریت بہترین انتقام ہے مختصر یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جس قسم کی جمہوریت کوہم نے وطن عزیز میں اپنے سینے سے لگا رکھا ہے اس میں عام آدمی ماضی میں بھی ہمیشہ ہارتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہارتا رہے گا مختصر یہ کہ حالیہ سینٹ کے الیکشن کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آ رہی ہیں‘وزیراعظم عمران خان کا یہ فیصلہ بالکل درست ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لیں گے انکے پاس اس سے بہتر کوئی آپشن ہے ہی نہیں اگر وہ یہ اعلان نہ کرتے تو اپوزیشن نے فوراً ًسے پیشتر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کر دینی تھی اگر تو وہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں ان کو پھر پار لیمنٹ کو تحلیل کرکے نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا ہوگا الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم کو قوم کو غیر مبہم الفاظ میں بتانا ہوگا کہ اگر وہ چاہتی ہے کہ اس ملک میں کرپشن کا کلی طور پر خاتمہ ہو اور وہ اگر ان کے زندگی کے مختلف شعبوں میں اصلاحاتی پروگراموں سے متفق ہے تو پھر اسے اس صورت میں ان کو اور ان کی سیاسی پارٹی کو کم از کم اتنی تعداد میں ووٹ ضرور دیں کہ قومی اسمبلی میں اس کے پاس مناسب عدوی قوت موجود ہو یا با لفاظ دیگر اسکے پاس دو تہائی اکثریت سے نشستیں موجود ہوں تاکہ انہیں کسی دوسری سیاسی پارٹی سے بہ امر مجبوری مخلوط حکومت نہ بنانی پڑے‘اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن نے گزشتہ ایک سال سے ملک میں جو غیر یقینی سیاسی صورت حال پیدا کررکھی ہے اس پر ہمارا ازلی دشمن بھارت دل ہی دل میں بہت خوش ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب کسی ملک میں غیریقینی سیاسی صورتحال حال پیدا ہو جائے تو وہاں تمام ترقیاتی منصوبے کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں اور ترقی کا عمل ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے یا کمزور پڑ جاتا ہے اور معاشی طور پر وہ ملک تباہ ہو جاتا ہے جب تک ملک میں موجودہ سیاسی بحران رہے گا اس کا معاشی پہیہ جام رہے گا اس لئے ضروری ہے کہ اس سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لئے جلد سے جلد آئینی اقدامات اٹھائے جائیں‘ اب تو اس ملک کا عام آدمی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ یہ کس قسم کا ملک ہے کہ جہاں الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے لئے بھی بولی لگتی ہے‘اگر اسی جمہوری روش کو آئندہ بھی فروغ دیا جاتا رہا تو اس ملک میں عام آدمی کی حالت نہیں بدلے گی جس طرح انسانی جسم کو جب کینسر کی بیماری اپنی گرفت میں ایک دفعہ لے لیتی ہے تو اس کے جسم کے تمام اعضاء ناکارہ ہونے لگتے ہیں بالکل اسی طرح اگر کسی ملک کے ڈھانچے کو کرپشن کی بیماری ایک مرتبہ لگ جائے تو وہ دیمک کی طرح اس ملک کے پورے نظام کو چاٹ جاتی ہے جب انسانی جسم کو لگی ہوئی کوئی بیماری گولیوں اور انجکشنوں سے درست نہ ہو سکے تو پھر مجبور اً ڈاکٹر سرجری کرتے ہیں وطن عزیز کی بھی آ ج کل یہی پوزیشن ہے وہ اس سٹیج سے کافی آگے نکل چکا ہے کہ جہاں اسے کرپشن کی جو بیماری لگی ہوئی ہے اب اسے ایک سرجری کی ضرورت ہے اور جب تک وہ اس عمل سے نہیں گزرے گا اس کی بہتری کی کوئی صورت ممکن نظر نہیں آتی۔