دروازہ کھلا رکھنا۔۔۔

 ایک پرانا قصہ مشہور ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہمارے صوبے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جو صوبےدار میجر تھا وہ بھی جنگ کے محاذ پر لڑنے کےلئے گیا ہوا تھا اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بڑا گرم مزاج شخص ہے ایک دن اس کے گاو¿ں کی خواتین آپس میں بیٹھی دوسری جنگ عظیم کے بارے میں گفت و شنید کر رہی تھیں اس صوبے دار میجر کی اہلیہ نے نہایت معصومانہ انداز میں ان سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ ہٹلر بڑا سر پھرا انسان ہے مجھے فکر اس بات کی ہے کہ میرا شوہر بھی بڑا غصے والا ہے کہیں یہ دونوں آپس میں نہ لڑ پڑیں یہ قصہ ہمیں پی ڈی ایم اور حکومت کے بعض زعما کے ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ حملوں کو دیکھ کر نہ جانے کیوں یاد آ گیا‘لگ یوں رہا ہے کہ حکومتی پارٹی اور اپوزیشن کے رہنماو¿ں نے اپنے اپنے موقف پر اتنا سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ اس سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آ رہے دونوں کیلئے آ گے گڑھا تو پیچھے کھائی ہے اسی لئے تو سیانے کہتے ہیں کہ نہ اس قدر کسی کے ساتھ دوستی میں اتنے میٹھے ہو جاو¿ کہ وہ تمہیں آ سانی سے نگل جائے اور نہ اتنے کڑوے کہ وہ تمہیں گلے سے نیچے اتار نہ سکے ایک اچھا سیاست دان مذاکرات کے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کرتا مبادا کوئی اس سے ملاقات کیلئے کسی وقت آ نکلے پارلیمانی نظام میں برسراقتدار سیاسی پارٹی صرف اس صورت ممیں اپنے منشور پر سو فیصد عمل درآمد کر سکتی ہے اگر اس کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہو اور وہ اپنی عدوی قوت کے بل بوتے پر قانون سازی کر سکے ۔عمران خان کا یہ المیہ ہے کہ 2018 میں وہ اقتدار میں تو آگئے پر ان کے پاس اتنی عدوی قوت نہ تھی کہ وہ اپنے انتخابی منشور کو باآسانی عملی جامہ پہنا سکتے کسی بھی مخلوط حکومت میں برسراقتدار پارٹی بہت مشکل کا شکار رہتی ہے اور اسے اس کے اتحادی اکثر بلیک میلنگ کا نشانہ بناتے رہتے ہیں سیاسی مصلحت کے تحت برسراقتدار پارٹی کو بڑے کمپرومائز کرنے پڑتے ہیںیعنی نہ اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں اور نہ دوسرے کے۔اس حوالے سے اردو میں ایک محاورہ مشہو رہے کہ دھوبی کاکتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا، یعنی نہ ادھر کا اور نہ اُدھر کااب چونکہ اس محاورے کا ذکر آگیا ہے تو کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم ذوق سلیم رکھنے والوں کی تفریح طبع کےلئے اس کی وجہ تسمیہ بیان کر دیں عام طور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس محاورے میں کتا سے مرادdog ہے پر درحقیقت ایسا نہیں ہے دراصل یہ لفظ کتکا تھا جو ڈنڈے کو کہتے ہیں کہ جس سے دھوبی گھاٹ پر دھوبی میلے کپڑوں کو کو مار مار کر پانی کے ساتھ دھو کر اس اس سے میل نکالتا ہے یہ ڈنڈا چونکہ اپنی جسامت میں کافی بھاری ہوتا ہے لہٰذا شام کو اپنا کام ختم کر کے جب دھوبی گھر جاتا ہے تو وہ اس بھاری بھرکم کتکے کو بوجھ سمجھ کر اپنے ساتھ اٹھا کر گھر نہیں لے جاتا بلکہ راستے میں کسی محفوظ جگہ پر اسے چھپا کے رکھ دیتا ہے اور صبح جب دوبارہ کام پر آتا ہے تو اسے وہاں سے اٹھا کر دھوبی گھاٹ لے جاتا ہے اسی وجہ سے یہ محاورہ عام ہوگیا کہ دھوبی کا ڈنڈا نہ گھاٹ میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ گھر میں جس طرح سے اور کئی الفاظ غلط العام ہوگئے ہیں اسی طرح لفظ کتکا وقت کے ساتھ ساتھ کتا میں تبدیل ہوگیا ۔اگر حالات اسی طرح غیر یقینی رہتے ہیں کہ جس طرح آج کل ہیں اور یہ کیفیت برقرار رہتی ہے تو لگتا یہ ہے کہ آئندہ ڈھائی برس بھی یہ ملک اسی طرح سیاسی انتشار کا شکار رہے گا جس سے حکومت وقت کی توجہ ان ترقیاتی کاموں سے ہٹتی رہے گی کہ جن پر توجہ دینا از حد ضروری ہے کورونا وائرس نے معاشی طور پر اس ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور تازہ ترین رپورٹس کے مطابق یہ وباءابھی مکمل طور پر نہ پاکستان میں ختم ہوئی ہے اور نہ کسی اور ملک میں بلکہ یہ مختلف شکلوں میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے اور اس ضمن میں من حیث القوم ہم ان احتیاطی تدابیر پر کماحقہ عمل نہیں کر رہے کہ جن پر عمل کرنا اشد ضروری ہے ۔