سیاسی اصلاحات کی ضرورت۔۔۔

اپوزیشن کو اچھی طرح یہ بات معلوم تھی کہ ان کی دال نہیں گلنے والی چنانچہ اس نے اپنی بہتری اور عافیت اسی بات میں سمجھی کہ ہفتے کے دن اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا جائے کہ جو وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے طلب کیا تھا ‘ ان کے اس بائیکاٹ سے حکومت کی صحت پر نہ کوئی اثر پڑنا تھا اورنہ پڑا ‘پی ڈی ایم کو اب تک حکومت کے خلاف اپنی تحریک میں کوئی خاطر خواہ سیاسی کامیابی نصیب نہیں ہوسکی ہے بجز اس کے کہ اس سے ملک انتشار کا شکار ہوا ہے حکومت کی توجہ کو وہ اگر اس قسم کے حربوں سے تقسیم کرتی رہے گی تو یہ ملک خاک ترقی کرے گا ۔اس ملک کا عام آدمی اب اتنا سیاسی شعور ضرور رکھتا ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ پی ڈی ایم کی راگنی بے وقت کی راگنی ہے وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ چلو اگر عمران خان نہ سہی تو پھر کون پی ڈی ایم میں شامل تقریبا تمام لوگوں کو تو ایک سے زیادہ مرتبہ آزمایا جا چکا ہے اب تو اس ملک کا عام آدمی بھی اس نتیجے پر آ پہنچا ہے کہ سب سے ضروری چیز تو یہ ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیوں میں پھیلی موروثیت کو سب سے پہلے ختم کرنا ضروری ہے ہمارا بیانیہ یہ ہونا چاہئے کہ سیاسی پارٹیوں سے موروثیت کو ختم کرو اور عام ورکر کو آ گے لاﺅ۔ اسلام آباد میں گزشتہ روز پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے ورکرز کے درمیان جو جھگڑا ہوا وہ اس جمہوریت کے منہ پر کالک ہے کہ جس کاہمارے سیاستدان دم بھرتے ہیں یہ بڑی عجیب بات ہے کہ بعض لوگ اس بات کو تو بہت اچھالتے ہیں کہ سرکار ان پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے خلاف ایکشن لے کہ جنہوں نے پیسے لے کر ووٹ ڈالے ہیں پر وہ اپنی صفوں میں موجود افراد کے خلاف بات تک نہیں کرتے کہ جنہوں نے ووٹ خریدے ‘اپوزیشن کی یہ بات بھی ہمیں عجیب لگی کہ صدر مملکت نے یہ کہا ہے کہ عمران خان اکثریت کھو بیٹھے ہیں کوئی ان سے یہ تو کہے کہ اسی لئے تو وزیر اعظم کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا تا کہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ ان کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے ۔کھسیانی بلی کھمبا نوچتی ہے‘ اپوزیشن کو وزیراعظم کی اس سیاسی چال سے زک پہنچی ہے اور وہ کچھ عرصہ کے بعد پھر کسی نئی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ سرگرم عمل ہو گی پر دونوں فریقین کے لئے اب یہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنی اپنی غلطیوں سے سبق لیں حکومت کو چاہئے کہ وہ گورننس کو بہتر بنائے اور ملک میں مہنگائی کا جو سیلاب آیا ہے اس کے آگے بند باندھے حکومت کے پاس اب اقتدار میں رہنے کے لئے بمشکل دو سال کا عرصہ بچا ہے جس کے دوران اگر وہ عوامی توقعات پر پورا نہ اتری تو آئندہ الیکشن میں اس کا اسی طرح سیاسی طور پر صفایا ہو سکتا ہے کہ جس طرح گزشتہ انتخاباتمیں دیگر پارٹیوں کا ہوا ۔اس ملک کا عام آدمی آج مخمصے کا شکار ہے ‘بے شک اس نے وزیراعظم عمران خان سے کافی امیدیں باندھ رکھی تھیں جو پوری نہیں ہوئیں پر وہ جب یہ سوچتا ہے کہ چلو اگر عمران خان نہ سہی تو پھر کس کو آگے لایا جائے تو وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا ‘کیا پی ڈی ایم میں موجود دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو دوبارہ اقتدار میں لایا جائے ‘انہوں نے تو ایک مرتبہ سے زیادہ اس ملک پر حکومت کی اور وہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہ لا سکے ان کے خلاف میگا کرپشن کی مبینہ داستانیں اگر سو فیصد درست نہ بھی ہوں تو پچاس فیصد تو ان میں کچھ نہ کچھ حقیقت تو ہو گی ‘ ہماری تو اپوزیشن کے رہنماو¿ں سے یہ درخواست ہوگی کہ وہ آئندہ دو سالوں میں اپنی تمام تر توجہ اس ملک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کر نے کی طرف مبذول کرے اور اس ضمن میں ان کو اپنی سفارشات کو پالیسیوں کی شکل میں عوام میں مشتہر کر کے ان پر بحث و مباحث کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہئے اور پھر ان کی بنیاد پر آئندہ الیکشن لڑا جائے ۔