سیاست کے نرالے رنگ  

 پی ڈی ایم کے بعض رہنما آج کل جو باتیں کر رہے ہیں ان کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ مایوس اذہان کی ہیں‘لوگ کہتے ہیں کہ ان کی تحریک ان کے حسب منشا نہیں چلی‘آدھے ہی راستے میں وہ پٹڑی سے اتر گئی حکومت کا بھی البتہ اقتدار میں باقی ماندہ وقت بہت بے چینی اور بے قراری میں ہی گزرے گا وہ اسے سکھ کا سانس نہیں لینے دیں گے ہو سکتا ہے وہ اب اپنی توپوں کا رخ پنجاب اسمبلی کی طرف موڑ دیں اور وہاں کی حکومت کا آئینی طور پر دھڑن تختہ کرنے کی کوشش کریں یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے قانونی ماہرین انہیں کوئی آئینی راستہ بتا دیں کہ اب وہ کتنے مہینوں کے بعد دوبارہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ قومی اسمبلی میں لا سکتے ہیں قصہ کوتاہ اگر عمران خان آئندہ الیکشن تک ایوان اقتدار میں رہتے بھی ہیں تو یہ عرصہ ان کے اور ان کی حکومت کیلئے اب پھولوں کا ہار نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج کے مترادف ہوگا اور اپوزیشن ہر وقت ان کے اعصاب پر سوار ہو کر انہیں امور مملکت کو یکسوئی سے چلانے کا موقع فراہم نہیں کرے گی اس کا اور کسی کو اتنا نقصان ہو نہ ہو اس ملک کی معیشت کا مزید بیڑا غرق ہو گا کیونکہ جس ملک میں انتشار ہوتا ہے اور امن عامہ خراب ہوتا ہے تو وہاں ترقی کا عمل رک جاتا ہے اور معیشت کا پہیہ جام ہو جاتا ہے اتنے زیادہ قرضے اس ملک پر چڑھا دیئے گئے ہیں کہ خدا جانے ہماری کس نسل کے وقت جا کر ہم ان قرضوں سے فارغ ہوں گے جس قسم کی سیاسی پولرائزیشن اس وقت ملک میں نظر آرہی ہے اس میں اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1970 ء کی دہائی میں پی این اے کی چلنے والی تحریک میں کافی مشابہت نظر آتی ہے البتہ ان میں ایک واضح فرق صاف نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بھٹو صاحب کا تعلق بائیں بازو سے تھا اور ان کے سیاسی مخالفین دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے جبکہ موجودہ سیاسی تحریک میں عمران خان دائیں اور بائیں بازو کے اشتراک عمل سے وجود میں آنے والے سیاسی گروپ کا مقابلہ کر رہے ہیں کہ جس کو پی ڈی ایم کا نام دیا گیا ہے نیرنگی سیاست اسی کو کہتے ہیں کہ 1970ء کی دہائی میں جو سیاسی پارٹیاں یکجا ہو کر بھٹو کے خلاف سرگرم عمل تھیں آج وہ بھٹو کے جانشینوں کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو گئی ہیں لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پی این اے کے رہنماؤں اور بھٹو صاحب کے درمیان بھی اسی قسم کی دشنام طرازی 1970 ء کی دہائی میں ہوا کرتی تھی کہ جو آج کل حکومت وقت اور پی ڈی ایم کے لیڈروں کے درمیان ہو رہی ہے آج کل ملک میں یہ سوچ زور پکڑ رہی ہے کہ پارلیمانی جمہوریت نے ابھی تک صحیح معنوں میں ڈلیور نہیں کیا اور اس ملک کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے رہ کر زندگی گزار رہی ہے ابھی تک ان لوگوں سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی جاسکی کہ جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے گزشتہ تیس چالیس برسوں میں اس ملک کو لوٹا اور وہ بدستور اس لوٹی ہوئی رقم سے گل چھڑے اڑا رہے ہیں‘ملک کی ایک اکثریت ملک میں ایک بے رحمانہ قسم کا احتساب چاہتی ہے بالکل اسی طرح کہ جس طرح سعودی عرب کے ولی عہد نے بعض لوگوں کو لٹکا کر ان سے لوٹی ہوئی رقم ریکور کی تھی