خوش قسمتی ہمیشہ نہیں مسکراتی عمران خان کے اقتدار کے سر پر جو خطرے کا بادل منڈلا رہا تھا وہ سر دست ٹل تو گیا ہے پر پوری طرح چھٹا نہیں انہیں جو نئی سیاسی زندگی ملی ہے اس میں ان کو اپنی ان غلطیوں اور کوتایو ں کا ازالہ کرنا ہوگا کہ جو ان سے گزشتہ دو برسوں میں سرزد ہوئیں یہ بات تو طے ہے کہ عوام کی ایک اکثریت نے انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر اس لئے بٹھایا کہ وہ ملک کی سیاست سے کرپشن کے کلچر کا صفایا چاہتے تھے اور ان افراد سے اس رقم کی ریکوری کہ جو انہوں نے دوران اقتدار ناجائز حربوں سے بنائی تھی اس ضمن میں غیر ضروری تاخیرہوئی ہے عوام کو اس بات کا بھی اچھی طرح ادراک ہے کہ پچھلی حکومتوں نے غیر ملکی قرضوں کا جو انبار چھوڑا ہے اس پر سود اتنا زیادہ دینا پڑ رہا کہ اسے دیتے دیتے ہماری معیشت کا کچومر نکل جائے گا پر اس کا پھر ایک علاج یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ملک کی معیشت کو دستاویزی بنا کر حصہ بقدر جثہ کے حساب سے بھاری ٹیکس لگایا جاتا اور عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے لانے کے بجائے ان سر مایہ داروں کی جیب سے پیسہ نکالا جاتا کہ جو غیر ملکوں میں بنا ہوا منرل واٹر پیتے ہیں جو کئی کئی کنالوں پر محیط فارم ہاو¿سز میں رہتے ہیں جن کے زیر تصرف بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز گاڑیاں ہیں جن کے بال بچے ان تعلیمی اداروں میں پڑھتے ھیں کہ جن کی ماہانہ فیس لاکھوں روپے بنتی ہے جو ہر برس یورپ عرب امارات کا کئی کئی مرتبہ سیر سپاٹے کیلے چکر لگاتے ہیں وغیرہ وغیرہ پر ابھی تک اس ضمن میں حکومت کی جانب سے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا غریب اور امیر دونوں کو ٹیکسوں کی مد میں ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا جا رہا ہے اسی طرح عوام ابھی تک منتظر ہیں کہ کب صحیح معنوں میں اس ملک کے خزانے کو عوام دوست منصوبوں پر ہی خرچ کیا جائے گا کب سامان تعیش کی درآمد پر مکمل پابندی لگے گی کب اس ملک میں صرف چھوٹی گاڑیوں کے استعمال کوہی فروغ دیا جائے گا اور اس ضمن میں سرکاری اداروں سے پہل کی جائے گی مفتی محمود صاحب اکثر اپنی تقاریر میں یہ جملہ کہا کرتے تھے کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ خدا ان کو اپنی زندگی میں وہ دن دکھلا دے کہ جب اس ملک میں وہ معاشرتی نظام قائم ہو جائے کہ جو اسلام کے دوسرے خلیفہ کے زمانے میں رائج تھا اس نظام کے ماڈل پر مبنی معاشی نظام کو آج دنیا کے کئی ممالک نے اپنا کر اپنے ملکوں کے عوام کی زندگیوں کو آسان کر دیاہے تو بات ہم نے شروع کی تھی عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کے حصول کی اور وہ کدھر سے کدھر نکل گئی آج وزیر اعظم صاحب کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ان کے مد مقابل ایک ہی کیمپ میں اس ملک کے تقریبا تقریبا تمام خرانٹ اور جغادری قسم کے سیاست دان جمع ہیں کہ جنہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیاہے یہ لوگ اس سیاست کے رموز کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جو وطن عزیز میں رائج ہے وہ ہر اس گر سے واقف ہیں کہ جن کے استعمال سے کسی بھی حکومت وقت کو وختے میں ڈالا جا سکتا ہے ان کی ممکنہ سرگرمیوں کا صرف ایک ہی توڑ ہے اور وہ یہ کہ وزیراعظم صاحب اب ڈلیور کریں کرپشن کرپشن کی گردان کافی ہو چکی اسے سن سن کر عام آدمی کے کان پک چکے اگر تو ان افراد نے واقعی کرپشن کی ہے کہ جن پر کرپشن کے الزامات ہیں تو ان کے خلاف مقدمات کو ہنگامی طور پر اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے بے شک گواہان کی فہرست میں سے غیر ضروری گواہان کے ناموں کو نکال باہر کیا جا ہے اور عدالتیں دن رات ہفتے میں سات دن کام کر کے ان مقدمات کا فیصلہ کریں حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ نیب کو بناتے وقت قوم کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ چونکہ عام فوجداری عدالتیں پہلے ہی سے مقدمات کے انبار تلے دبی ہوئی ہیں اس لئے نیب کا ادارہ وجود میں لایا جا رہا ہے تاکہ ہای پروفائل کرمنل اور میگا کرپشن کیسز کا جلد سے جلد فیصلہ ہو سکے ۔